Do Mahmaan


امریکی بپتا

تحریر شاہد لطیف
چرکی ریڈ انڈین نَورا

2000 کے شروع کا ذکر ہے، راقم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے ’ اُوک ہِل ‘ میں رہتا تھا۔او ر کام کے سلسلے میں یہاں سے 52 میل کے فاصلہ پر ساؤتھ چارلسٹن چند روز کے اندر اندر منتقل ہونے کے انتظامات کا سوچ رہا تھا ۔ میری عادت تھی کہ فرصت کے اوقات یا کبھی چھٹی والے روز ،کسی ویران اور متروک قبرستان میں اپنی 1989ماڈل کی ٹویوٹا ٹرسل میں جا کر گھومتا پھرتا۔ اِن ہی ایام میں ایک چرکی ( جِس کو ہم لوگ چیروکی کہتے ہیں) خاتون، نَورا Nora سے مُلاقات ہوئی جو اپنے آپ کو خالص چرکی کہلواتی تھی اور اس کی آنکھیں اور چہرہ مہرہ سب ہی ریڈ انڈین لگتا تھا۔میرے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے ایک خاندانی لیکن متروک اور غیر آباد قبرستان میں لے آئی۔واقعی ٹوٹے اور جھولتے ہوئے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں تو زمانے سے کوئی زندہ یا مردہ نہیں آیا ۔ میر ے کہنے پر وہ مجھے قبرستان کے ایک قدیم مقبرے میں لے آئی جس کا آدھا دروازہ کب کا گر چکا تھا ۔ بظاہر تو سورج کی روشنی کافی تھی لیکن اس مقبرہ میں کچھ کم محسوس ہوئی۔اندر اوپر تلے کئی ایک تابوت رکھے نظر آئے۔میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ سب دیکھتے ہیں جِس پر اُس نے پوچھا کہ کہ میں یہ تابوت اور صاحبِِ تابوت کیوں دیکھتا ہوں؟ میں نے جواب میں کہا کہ ’’ معلوم نہیں ‘‘ ۔اِس پر نورا نے حیرانی سے مجھے دیکھا ۔ہم نے اُس کمرے میں اوپر تلے رکھے9 تابوت کھول کر دیکھے۔کافی دیر بعد جب شام ڈھلے ہم اُس مقبرے سے واپس ہونے والے تھے، نورا نے کہا اگر مجھے یہاں سے کوئی چیز بطور یادگار لے جانی ہے تو وہ میں لے جا سکتا ہوں۔ میرے انکار پر وہ بہت خوش ہوئی۔شام کو وہ میری فارمیسی میں آئی ۔میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے فارماسسٹ کی اجازت سے دفتر میں خاتون کے ساتھ آ گیا۔

عجیب معاملہ 
 نورا نے پوچھاکہ قبرستان میں کیا پریشانی تھی ؟ میں نے کہا کہ مجھے جلد ایک حکومتی ملکیت کا تخفیف شدہ کرایہ پر اپارٹمنٹ درکار ہے جو ریاستتی ادارے Urban Development Housing and کے تحت آتا ہو۔نورا مسکرائی اور کہا کہ فون بُک یعنی ٹیلی فون ڈائرکٹری لاؤ۔وہ لائی گئی، تب اُس نے اپنے پرس سے کچھ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے نکال کر ڈائرکٹری کے دائیں طرف رکھ دئیے پھر آنکھیں بند کر کے تاش کے پتوں کی طرح ڈائرکٹری کے صفحات کو چھیڑا۔اُس کے بعد دو تین دفعہ کھولا بند کیا ۔ پھر بالآخر ڈائرکٹری کو کھو ل کر بند آنکھوں سے دائیں جانب کے صفحے پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیریں ایک جگہ اُنگلی رکھ کر اپنی آنکھیں کھول دیں اور بغیر دیکھے کہا کہ اِس نمبر پر فون کر لو۔اب جو میں نے وہ صفحہ دیکھا تو دانتوں تلے انگلیاں آ گئیں۔یہ صفحہ اور اس سے ملحق کچھ اور صفحات ’ رئیل اسٹیٹ ‘ کے تھے اور خاص وہ صفحہ جہاں اُس نے انگلی رکھی تھی ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ والوں کی پراپرٹی کا تھا۔

میری حالت غیر دیکھتے ہوئے وہ بولی ’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔تم اب ہمارے ہو‘‘۔یہ کہا اور اُس نمبر پر فون گھما دیا۔اُن سے کیا بات ہوئی وہ الگ ہے مگرکمال یہ ہواکہ مخاطب بھی چرکی تھا۔نورا نے کہا کہ وہ مجھے گھر دلانے میرے ساتھ 100 میل سے زیادہ کا آنا جانا بخوشی کرے گی۔ یوں ہم دونوں متعلقہ پتہ پر پہنچ گئے ۔ یہ جگہ انٹر اسٹیٹ 64 ( جیسے ہماری موٹر وے ایم ۔ ۲)سے خاصی قریب تھی۔ ایک وسیع قطع میں قدرے نئے بنے ہوئے ایک منزلہ مکانات اور ٹاؤن ہاؤس نظر آئے۔راہنمائی کے اشارات کی مدد سے ہم اِس کمپلیکس کے دفتر پہنچ گئے۔یہاں کے انچارج اور اُن کی بیوی بھی چرکی تھے۔ نورا نے آنے کا منشاء بتایا اور آناََ فاناََ وہ سب کاغذی کاروائی ہو گئی جو سرکاری طورپر دِنوں میں ہوتی۔چونکہ میری بیوی اور تین بچوں کو بھی یہاں رہنا تھا لہٰذا مجھے 3کمروں والا ٹاؤن ہاؤس الاٹ ہوا۔ سامنے کی جانب ایک چھوٹی سی خوبصورت کیاری کے ساتھ مین گیٹ۔ نیچے کی منزل میں ایک لِونگ روم، ایک بیڈ روم، ایک غسلخانہ اور باورچی خانہ اور اوپر کی منزل میں دو بیڈ روم اور ایک غسلخانہ۔گھر کی پچھلی جانب چھوٹا سا باغ اور اسٹور روم۔ میرا گھر قطار کا آخری مکان تھا۔ اِس سے کچھ فاصلہ پر ایک خشک برساتی ندی تھی جہاں درمیان میں پانی بھی تھا۔ندیا کے پار غیر آباد علاقہ اور اُس سے آگے جنگل ۔ میرے گھر اور ندی کے درمیاں بلدیہ والوں نے ایک بڑا سا موٹے پلاسٹک کا کوڑے دان رکھا ہوا تھا۔

واپسی کے سفر میں شدید برف باری ہو رہی تھی۔ مجھ سے زیادہ تو نورا خوش تھی۔اُس کو اُس کے ٹریلر ہاؤس میں چھوڑا تو نورا نے کافی کی پیشکش کی۔

’’ تم کب شفٹ ہو رہے ہو؟‘‘۔کافی پیتے ہوئے بغیر تمہید کے اُس نے سوال کیا۔
’’ کل دوپہر تک ‘‘۔میں نے جواب دیا۔
کچھ سوچ کر بولی ’’کل رات تمہارے گھر مہمان آئیں گے اُن کی خدمت کرنا‘‘۔اِس پر میں نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔اوربائی بائی کر کے چلا آیا۔

میری کیا تیاری ہونا تھی اُس وقت تو صرف مسافری سامان ہی تھا جو کار میں آسانی سے سما گیا اور یوں میں دوپہر سے قبل ہی ٹاؤن ہاؤس میں منتقل ہو گیا۔ ہم وطن فارمیسی کے مالک کی بیوی بھی میری مدد کرنے آئی اور میر ے’ سازوسامان ‘ کو دیکھتے ہوئے از راہِ ہمدردی اپنے ہاں سے کچن کی روز مرہ استعمال کی اشیاء اورکچھ برتن وغیرہ بھجوا دئیے۔ میں ایک قصبہ سے آیا تھا یہ شہر تھا لہٰذا گھومنے پھرنے اور نئی کھُلنے والی فارمیسی دیکھنے چلا گیا جہاں میں نے انشاء اللہ کل سے کام کرنا تھا۔یہاں کی فارمسسٹ لبنانی تھیں وہ مجھے شہر کے دو انڈین اسٹوروں میں لے گئیں جہاں سے میں رات گئے نئے گھر لوٹا۔گاڑی سے باہر نکلا، اس وقت بھی ہلکی برفباری ہو رہی تھی۔میں نے دروازے میں چابی گھمائی ہی تھی کہ میاؤں کی آواز کے ساتھ دو عدد بلّی کے بڑے سائز کے بچے نظر آئے۔ بے اختیار میں نے اُن کو پچکارا تو وہ دونوں میرے پیروں سے لپٹنے لگے۔دیکھنے میں تو عام سے تھے لیکن جو خاص چیز اِن میں بالکل واضح نظر آ رہی تھی وہ یہ کہ اُن پر برف کا کوئی نام و نشان نہیں تھا نہ ہی نرم برف پر اُن کے چلنے سے پاؤں کے نشان پڑ رہے تھے جو کہ دونوں ہی چیزیں نا ممکن تھیں لہٰذایہ طے ہو گیا کہ وہ  بِلیاں نہیں کوئی اور مخلوق تھی لیکن یقین مانئیے قطعاََ کوئی خوف محسوس نہیں ہوا ۔شاید وہ ضرر پہنچانے والے نہیں ہوں گے۔میں اِنہیں پچکار کر اندر لے آیا۔پلیٹ میں کچھ دودھ ڈال کر اُن کے آگے رکھا ۔اور تھوڑی دیر اُن کو پیار کرنے کے بعد فرش پر بستر بنا کر لیٹ گیا ۔ دونوں بِلّیاں میرے اوپر اُچھل کود کرنے لگیں۔رات کو سونے کے اعمال پڑھ کر بلند آواز سے اُن سے کہا کہ میں سونے لگا ہوں اپنا گھر سمجھ کر رہیں اور برائے مہربانی گندگی سے پرہیز کریں ۔ اب وہ اُردو سمجھتے تھے یا نہیں علم نہیں ۔ 

رات آرام سے گُزری۔ صبح اُن میں سے ایک میرے بازو پر دوسرا میرے پیٹ پر استراحت فرما رہا تھا۔ اُن کی پلیٹ دیکھی جو ویسی ہی بھری ہوئی تھی۔پھر بھی میں نے وہ دودھ گرا کر پلیٹ کو اچھی طرح سے دھو کر دو بارہ دودھ ڈال کر اُن کے سامنے رکھا۔جو کہ اُنہوں نے سونگھ کر چھوڑ دیا۔میں ناشتہ سے فارغ ہو کر فارمیسی جانے کی تیاری کرنے لگا ۔جبکہ وہ میرے ساتھ ساتھ نتھی رہے۔دروازے سے باہر نکلا تو یہ بھی نکل کر کیاری میں بیٹھ گئے۔ گھر کے اندر ان کو چاہتے ہوئے بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا کیوں کہ معاہدے کے تحت میں اپنے گھر میں پالتو جانور نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک مرتبہ اور، دِن کی روشنی میں اِن کے برف پر چلنے کے تازہ نشان دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہیں دئیے۔یوں میں نے اِن کو خدا حافظ کہا۔

فارمیسی سے چھٹی کے بعد اسلامک سینٹر چلا گیا وہاں سے انڈین اسٹور کے ٹھاکر پٹیل اور اُن کی بیوی کرن سے گپ شپ کی اور پھر گھر آ گیا۔ حسبِ معمول دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ وہی بلّے دوبارہ نمو دار ہو گئے۔وہی کل والی کہانی ہوئی فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے آج کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کیا اور وہ گھر کا معائنہ کر کے میرے سامنے ہی بیٹھ گئے۔ اِسی طرح دو دِن اور گزر گئے۔ اِنہوں نے اس دوران گھر میں کوئی گندگی نہیں کی نہ ہی کوئی خاص دودھ ہی پیا۔یوں سنیچر کا دِن ہو گیا۔اب دو دن میری چھٹی تھی میں دوپہر کو نورا سے ملنے اُس کے ٹریلر ہاؤس اوک ہِل آیا۔وہ تپا ک سے مِلی۔

’’ کہو ! پھرمہمان آئے؟‘‘۔ اُس نے مسکراتے ہوئے پہلا سوال یہی کیا ۔
’’ آئے تو تھے! لیکن بات چیت نہیں ہو سکی‘‘۔میں نے جواب دیا۔ 
’’ اچھا؟‘‘۔اُس نے پوچھا۔
’’ میں اُن کی زبان سمجھنے سے قاصر رہا ، ‘‘۔میں نے جواباََ کہا۔ ’’ لیکن وہ میرے پاس خوش تھے ‘‘ ۔
 ’’ وہ تھے کون؟‘‘۔ لوہا گرم دیکھتے ہوئے میں نے سوال کیا ۔

’’ تُم سے اور تمہاری اشیاء سے مانوس ہونے کے لئے بھیجے گئے تھے۔تم نے ہمارے پُر کھوں کو پسند کیا اُنہوں نے تُم کو‘‘...... اَس کے بعد..... ایسا لگا جیسے کسی نے اُس کو بات کرنے سے منع کر دیا ۔ اِس کے بعد کسی سوال جواب کی ضرورت نہ رہی۔
.....................................................
اختتام
(  خاکسار کا لکھا ہوایہ پراسرار ماجرا ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے جون 2017 کے شمارے میں شائع ہوا)




Comments

Popular posts from this blog