پاکستان میں بے روزگاری اور ہٹلر کے چار سالہ منصوبے
پاکستان میں بے روزگاری اور ہٹلر کے چار سالہ منصوبے
تحریر شاہد لطیف
ہمارے ملک میں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن عوامی نوعیت کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہی رہے۔ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہو گی جِس کے منشور میں ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کا ذکر نہ ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت نے ملک کی ترقی اور روزگار فراہم کرنے کے منصوبے اور اسکیمیں سوچیں لیکن ایک طرح یا دوسری طرح اِن کے نفاذ کا حق ادا نہ ہو سکا جِس کی وجہ سے بے روزگاری کا مسئلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ ملک سے بے روزگاری ختم ہو جائے؟یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جِس سے ان گنت مسائل جڑے ہوئے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ملک ہے جہاں ہمارے جیسے بے روزگاری کے مسئلہ پر قابو پایا گیا ہو؟ جرمنی وہ ملک ہے جہاں پر ہمیں جنگِ عظیم اوّل کے بعدمایوسی، بد دلی، ملکی کرنسی کی بے وقعتی، اور بے روزگاری نظر آئی۔ایسے برے حالات میں ہٹلر ، نیشنل سوشلسٹ سماجی کایا پلٹ پروگرام لے کر منظر ِ عام پر ابھرا۔اُس نے قوم سے تین سال مانگے اور اِس مدت میں وہ کام کر دکھایا جو صرف معاشیات کی کتابوں میں ہی مِلتا ہے ....... یعنی فُل امپلائمنٹ ........ کہ آ پ کو لیبر کی ضرورت ہو اور ایک بھی لیبر خالی یا فارغ نہیں مِلے، سب پہلے ہی سے کام پر ہوں۔ صرف تین سال میں بے روزگاری پر کیسے قابو پا لیا گیا؟ اِس طرح جرمنی کی معیشت کو پھلنے پھولنے کا موقع مِلا۔کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا؟
عوامی کاموں کے اخراجات کے لئے ، اُس نے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کئے جو ریل کی پٹریاں، آب پاشی کے لئے نہریں، پورے ملک میں سڑکوں کا جال اور بڑی شاہراہیں بنانے میں استعمال ہوئے۔یہی ہٹلر کی معاشی پالیسی رہی۔دنیا نے اِس کا نتیجہ بھی جلدد یکھ لیا۔ 30 کی دہائی کے اواخر میں جرمنی میں روزگار کی شرح صد فی صد تھی اور ملک گیر قیمتوں میں استحکام تھا۔اُس وقت کے تمام صنعتی ممالک میں یہ ایک یکتا اور انیق مِثال ہے۔
30 جنوری 1933 وہ یادگار دِن ہے جب ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا۔ ہٹلر نے جرمنی کے چانسلر بننے کے دو دِن بعد ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا۔اُس نے کہا کہ چار سالہ ترقیاتی منصوبے کی مدد سے ملکی معیشت کی تنظیمِ نو کی جائے گی۔کسان ملک کی بنیاد ہیں لہٰذا اِن کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آ ئے گی اور نہ ہی عدم تحفظ کا احساس۔جرمن مزدور کو بھی سر اُٹھا کر جینے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے اور مستقل روزگار کی ضمانت دی جائے گی۔اُس نے یقین دِلایا کہ صرف چار سال میں بے روزگاری کو ضرور ملک سے ختم کیا جائے گا ..... اِس عرصہ کے بعد آپ ہم کو پرکھ سکتے ہیں۔
اپنی ہی پارٹی کے بعض ناقابلِ عمل یا کمزور معاشی نکات ہٹلر نے مُسترد کر دیے۔ اہل اور قابل لوگوں کی جانب متوجہ ہوا جو اپنے اپنے میدانوں میں لوہا منوا چکے تھے۔Hjalmar Schacht نام کے ایک نامور بینکر اور فنانسر ، جِس کا پرائیوٹ اور پبلک دونوں سروسوں میں بہت شاندار ریکارڈ تھا، کا انتخاب کیا گیا۔یہ حضرت قطعاََ نیشنل سوشلسٹ نہیں تھے پھر بھی قابلیت کی کسوٹی پررکھتے ہوئے ہٹلر نے اِن کو جرمنی کے مرکزی بینک، Reichsbank کا صدر مقرر کر دیا۔بعد کے زمانے میں معیشت کا وزیر بھی۔
جرمنی کی نئی حکومت نے اوّل کام بے روزگاری کو پوری طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کا کیا......نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سبسیڈی اور ٹیکس ریبیٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔پبلک ورکس پر خوب کام کیا جیسے ’ آٹو بان ‘ ہائی وے سسٹم، مکانات کی تعمیرات، ریل کے نظام میں پھیلاؤ اور بہتری وغیرہ....... جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا ہٹلر اور اُسکی نیشنل سوشلسٹ حکومت نے 4 سال کی مدت کے اندر ملک سے بے روزگاری ختم کر دی۔ 1933 کے شروع میں چھ ملین بے روزگار جرمن تھے جو 1936میں یہ گھٹ کر ایک ملین رہ گئے ۔ بے روزگاری کی یہ شرح اِس قدر تیزی سے کم ہوئی کہ 1937-38 میںیہ صفر بلکہ منفی صفر رہ گئی اور ملک میں قومی لیبر کمی کا اعلان کیا گیا۔ 1932 سے 1938 کے درمیان ہفتہ وار مشاہرہ 14 فی صد بڑھ گیا۔مکانات کے کرایوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور قیمتیوں میں استحکام رہا۔ہیٹنگ اور بجلی کی قیمتیں کم ہو گئیں۔بجلی کے آلات، گھڑیوں اور بعض کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں واضح کمی دیکھی گئی۔
1933 اور 1939 کے عرصہ میں بعض قیمتیں اوسطاََ 1.2 فی صدسالانہ بڑھیں جبکہ ٹیکس کاٹنے کے بعد نیٹ ہفتہ وار اوسط معاوضہ 22 فی صدبڑھا۔حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی ، ستمبر 1939میں یہ معاوضے بڑھتے ہی رہے۔1943 میں جرمن مزدور کا اوسط فی گھنٹہ معاوضہ 25فی صدبڑھ چکا تھا اور اُس کی ہفتہ وار تنخواہ 41 فی صد۔مزدور کو زیادہ اُجرت ملنے کے علاوہ، کام کرنے کا بہتر ماحول، صحت کی جملہ سہولیات، بہتر حفاضتی ماحول، کام کے دوران رعایتی قیمت پرکھانامِلنا۔تعلیم بالغاں اور ریاعتی سیاحتی پروگرامز ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سہولیات کا جاری رہنا، نیشنل ہیلتھ کیئر پروگرام، مزدور کو روزگار کی گارنٹی اور بعد از ریٹایئرمنٹ تا حیات پنشن بھی ملا کرتی تھی۔
ہٹلر کی خواہش تھی کہ جرمن عوام کا معارِ زندگی ممکن حد تک بلند ترین ہو۔اُس نے 1934میں کسی امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ’’ میرے خیال میں ہر فرد کو ترقی کے زینے چڑھنے کے یکساں مواقع دینے بہت ضروری ہیں ‘‘۔ مورخ جان گیریٹی کے مطابق ہٹلر کی ترجیح ہمیشہ ایک عام جرمن شخص رہا نہ کہ کوئی اشرافیہ ۔ حکومت کی بھر پور کوشش رہی کہ ایک طبقہ دوسرے پر حکمران نہ رہے بلکہ ہر فرد کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں.... ... یہ طبقاتی کشمکش کا موثر علاج ہے۔ جرمنی کی تجارت کی تجدید ہوئی اور وہ پھلی بڑھی۔نیشنل سوشلسٹ حکومت کے پہلے چار سالوں میں بڑی کارپوریشنوں کے نیٹ فوائد چار گُنا ہو گئے۔ 1939سے 1942تک اِن تین سالوں میں میں جرمنی کی صنعت اِس قدر پھیلی جِس قدر پچھلے پچاس سالوں میں پھیلی تھی ۔
ہٹلر کے دور میں جرائم بہت کم رہ گئے۔قتل، چوری، ڈکیتی، خرد برد کے کیس تو بہت ہی کم رہ گئے۔صحت کے معاملے میں تو جرمنی نے دیگر مملک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ممبر سر آرنلڈ وِلسن لکھتے ہیں: ’’ ٹی بی اور دیگر بیماریاں واضح طور پر ختم کر لی گئیں ہیں۔عدالتوں میں جرئم کے کیس نہ ہونے کے برابر ہیں اور جیلیں قیدیوں سے کبھی اتنی خالی نہیں رہیں جتنی اب ہیں.... ‘‘۔
1939 میں اپنی حکومت کی معاشی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے ہٹلر نے کہا : ’’ ہم نے جرمنی میں افرا تفری ختم کی، امن و امان قائم کیا، قومی معیشت کے میدان میں پیدا وار میں نمایاں اضافہ کیا، سخت کوششوں کے بعد ان بہت سی چیزوں کے نعم البدل کامیابی سے تلاش کیے گئے جو ہمارے پاس نہیں تھے۔نئی ایجادات کی حوصلہ افزائی کی، ٹریفک کے نظام کو بہتر کیا، عظیم شاہراہوں کو ممکن بنایا، نہریں کھد وائی گئیں، بھاری صنعتیں لگائی گئیں، اِس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور ثقافت کے میدان میں بھی کام کیا گیا۔سب سے بڑھ کر یہ اطمنان کہ سات ملین بے روزگار افراد ، اب رو زگار پر لگ گئے...... ‘‘
سیبیسٹین ہیفنر ، ایک موثر جرمن صحافی اور مورخ ہیں جو ہٹلر اور اُس کے نظریات کے سخت ناقِد ہیں ، لکھتے ہیں: ’’ ...... ہٹلر کی مثبت کامیابیوں میں جو سب سے ممتاز نظر آتی ہے وہ اُس کا معاشی معجزہ ہے ۔جب تمام دنیا اقتصادی بحرانوں میں پھنسی ہوئی تھی، ہٹلر نے جرمنی کو تین سالوں میں خوشحالی کا جزیرہ بنا ڈالا۔اسی وجہ سے کئی ایسے جرمن جو ہٹلر کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے وہ بھی اِس کامیابی پر ہٹلر کے گرویدہ ہو گئے۔یہ فضا 1936 اور 1938کے درمیانی زمانے میں مزید بڑھ گئی...... ‘‘۔
غیر ملکی بھی اِس شاندار ترقی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔امریکی کارپوریشنیں جیسے اسٹینڈرڈ آئل، جنرل موٹرز اور آئی۔بی۔ایم وغیرہ براہِ راست جرمنی کی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے آ گئیں۔
ڈیوڈ لائڈ جارج ، جو پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں، انہوں نے 1936میں جرمنی کا دورہ کیا۔بعد میں لندن سے شائع ہونے والے اخبار ’ دی برٹش سٹیٹسمین ‘ میں اُن کے مشاہدات چھپے۔ ’’ ہٹلر نے بلا شک و شبہ چار سال میں جرمنی کو ایک نیا جرمنی بنا ڈالا ہے۔وہ جنگ ذدہ ، ٹوٹا پھوٹا بد دل، اُداس، قنوطی اور مضمحل نہیں رہا۔اب وہ امید اور بھروسے سے بھر پور، مضبوط قوتِ ارادی والا ملک ہے جو کسی بیرونی اور غیر ملکی دباؤ کے بغیر اپنا راستہ خود معین کرنا جانتا ہے ......... ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ہم پاکستانیوں کو مہلت دے رکھی ہے ۔آخر ہم اچھے قومی منصوبوں کے نفاذ میں بد دیانتی کیوں کرتے ہیں؟۔ یہاں قطعاََ قابِل افراد کی کمی نہیں۔اسکیمیں اور پراجیکٹ، اگر صحیح طریقے سے نافذ ہی نہ ہو سکیں تو پھر اِن کا بھلا کیا فائدہ؟ بہترین منصوبوں کے نفاذ کے لئے بھی اگر اُن کو چُنا جائے جو نا اہل اور نا موزوں ہوں تو پھر نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا ۔ہم 1919 کے جرمنی کے جیسے تو نہیں ہیں، پھر آخر ایسی کیا بات ہے کہ نا اُمیدی اور بے روزگاری کے عذاب ہی سے جان نہیں چھوٹ پا رہی۔کیا ہمیں کسی ہٹلر کا تو انتظار نہیں؟
............................................
اختتام
( یہ مضمون ١٤ جنوری، ٢٠١٧ کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر کالم " الٹ پھیر " میں شایع ہوا)
Comments