پاکستان جاپان کیوں نہیں بن سکا؟


  پاکستان جاپان کیوں نہیں بن سکا؟
تحریر  شاہد لطیف 

1945 کی جنگِ عظیم دؤم، جاپان کے دو شہروں پر امریکی ایٹم بموں کے گرنے کے بعد انجا م کو پہنچی ۔اِس کے فوراََ بعد جاپان کی عزتِ نفس، ملکی وقار اور اِقتصادی حالت کا کیا عالم تھا! یہ جاپانیوں سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے ۔ 

سوال یہ ہے کہ کچھ ہی عرصے میں وہ دُنیا کی ووسری بڑی معیشت کیسے بن گیا؟ یقیناََ اِس کے کچھ اسباب ہیں۔اِن میں عوام کو آنے والے کڑے وقت کے لئے تیار کرنا، صنعتی ترقی حاصل کرنے کی صلاحیت اور تجربہ، حکومتِ جاپان کی پالیسیاں، پالیسی بنانے اور نافذ کرنے والوں کا علم اور متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھنا سرِ فہرست ہیں۔
جاپان کے فلاحی معاشرے کا بھرپورآغاز ایٹمی تباہی کے بعد شروع ہوا جب اقتصادی کساد بازاری کا دور دورہ تھا اور بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہو گئے؛ کیوں کہ جاپانی کرنسی کی وقعت کم ہونے کی وجہ سے اُس کی برآمدات بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر سکیں۔ بیرونی مملک کی منڈیوں میں اُس وقت جاپانی اشیاء بہت مہنگی تھیں ۔ایسے میں سمجھدار جاپانی پالیسی ساز وں نے صنعتی کمپنیوں کو دیوالیہ ہو نے سے بچانے کے لئے قانون سازی کر کے جاپان کو فلاحی معاشرہ بنا دیا ۔ اب حکومت نے ملکی کمپنیوں اور صنعتی یونٹوں کو قرضے دینے شروع کیے جنہوں نے آگے چل کر صنعت و حرفت اور ٹیکنالو جی کے میدان میں اپنے اور ملک کے نام کا ڈنکا بجا دیا ۔ حکومت اور تجارت کے پیشے سے متعلق لوگوں کے مابین مثالی تعاون پیدا ہو گیا۔ ایسا ہی مِثالی تعاون افسر شاہی اور بر سرِ اقتدار پارٹی اور حزبِ اختلاف کے مابین تھا ۔اِس کی وجہ سے 1950 سے 1973 تک جاپان کی مجموعی قومی پیدا وار بڑھ کر 10% سالانہ ہو گئی۔اور اب تو جاپان کی برآمدات 70% پہنچ چکی ہیں ۔

بات پھرجنگِ عظیم دوئم پر جاتی ہے جب جاپان مادی اور اخلاقی ہر لحاظ سے صفر بلکہ منفی صفر ہو گیا تھا۔ جاپانیوں نے ملک کی عزت بحال کرنے کی بھاری قیمت ادا کی۔ بین الا قوامی منڈیوں میں کامیاب مقابلے کے لئے کم قیمتوں پر سمجھوتہ کیا، جِس کے لئے اُنہوں نے اپنے معاوضے کم کئے ۔اِس کے جواب میں حکومت نے صنعتوں اور دیگر شعبوں میں ’ مُستقل روزگار ‘ اور با وقار پینشن کی ضمانت دی ۔اِس سلسلے میں جاپان کے لیڈروں کے مثبت کردار کی تعریف کرنا پڑے گی۔اِن کی بات اِس سے شروع ہوا کرتی تھی کہ ’ ملک کے لئے کیا بہتر ہے؟ ‘ وہ اپنے لئے نہیں سوچتے تھے بلکہ اپنے حلقے کی بہتری کے لئے سوچتے تھے جہاں سے وہ منتخب ہو کر آئے ہیں ۔


یہی، وہ اہم ترین وجوہات ہیں جِن کی بنا پر ایک بے وقار جاپان نے نہایت ہی کم وقت میں منظم ہو کر اپنے آپ کو کامیاب ترین تجارتی ملک میں تبدیل کر لیااور اُنہوں نییہ سب کچھ اپنی زبان اور ثقافت کو چھوڑے بغیر حاصل کیا۔
14 اگست 1947 کو ارضِ پاکستان وجود میں آیا۔مہاجرین کے قافلوں کو پاکستان آتے ہوئے آگ کے دریا میں سے گزرنا پڑا، شروع میں سرکاری امور کے چلانے میں بے حد دشواریوں کا سامنا تھا ۔ اِدہر قائدِ اعظمؒ کا انتقال ہوا اُدہر بھارت نے اپنی اصلیت دکھاتے ہوئے مسائل کے انبار کھڑے کر دیے۔یہ سب بجا لیکن کیا ہمارے اوپر کوئی ایٹم بم گرا؟ بحیثیتِ مفتوح کوئی ذلّت انگیز معاہدہ کیا گیا؟کیا کوئی تاوانِ جنگ لاگو ہوا؟ ۔سب جواب نفی میں ہیں تو پھر ہم جاپان کیوں نہیں بن سکے؟ 

بہت آسان سا جواب ہے کہ :
سب سے پہلے میں.... پھرمیں .... اور. پھر بھی میں! ..... ہماری ناکامیوں کا مونہہ بولتا ثبوت ہے!!
وہاں حکومت نے درست سمت معین کر کے ملک کی ترقی کے لئے ایک پالیسی بنائی پھر اہل ترین لوگ، خواہ نوکر شاہی ہو، یا مقامی سطح کے افسران ہوں، اِن کے اشتراک سے اِس کو نافذ بھی کیا۔ہمارے ہاں کیا ہوا؟...... شرم کے مارے قلم نہیں چلتا۔


وہاں کے لیڈران ہر کام کرتے وقت یہ سوچا کرتے تھے کہ کیا یہ جاپان کے مفاد میں ہو گا؟ پاکستان کے پاکستانی لیڈراگر یہ سوچ رکھتے تو ہمارا ملک جاپان نہیں توکم از کم کوریا ہی بن جاتا جہاں جناب محبوب الحق کا مجسمہ اُن کے قومی لیڈروں کے بیچ ایستادہ ہے جنہوں نے کوریا کو کوریا بنایا۔ 


جاپانیوں نے اپنی انا اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر مستحکم معیشت بننے کے لئے بھاری قربانی دے کر غیر ملکی منڈیوں میں مقابلہ کیا اور ایسا کیا کہ چند برسوں میں سب کو مات دے دی ۔ اِس کو حاصل کرنے کے لئے پوری جاپانی قوم نے اپنا پیٹ کاٹا ۔افسوس کہ ہمارے ہاں اِس کا عشر عشیر بھی نہ ہو سکا۔


روایت یہ بھی ہے کہ ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں اتحادی فاتحوں نے مفتوح سے کہا کہ کیا اُس کی بھی کوئی شرائط ہیں تو وہاں سے جو جواب آیا وہ آج کے پاکستان کے لئے اب بھی مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔جواب آیا کہ بس ایک ہی شرط ہے کہ جاپان میں جاپانی ثقافت کو مسخ نہ کیا جائے اُسے جاپانی ہی رہنے دیا جائے اور بالکل ابتدائی درجے سے اعلیٰ ترین درجہ تک ذریعہ تعلیم جاپانی زبان میں رہنے دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقِم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ سے متعلق کافی ذکر ہو چکا مگر آج پھر کچھ باتیں ایسی ہو گئیں جنہوں نے لکھنے پر مجبور کر دیا :

پہلی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ بحیثیت صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنی تنخواہ صرف ایک ڈالر سالانہ لیں گے۔ 
ایسا ہی ایک قدم قائدِ اعظمؒ نے بھی اُٹھایا تھا وہ علامتی طور پر بحیثیت سر براہِ مملکت ایک روپۂ تنخواہ لیتے تھے اُن کے بعد پاکستان کے کسی سربراہِ مملکت نے ایسا نہیں کیا۔ سربراہانِ مملکت کو تو آپ ایک طرف رکھئیے کیا کبھی کسی رُکنِ قومی یا صوبائی اسمبلی سے یہ سُنا کہ صاحب اللہ کا دیا سب کچھ ہے میں ماہانہ صرف ایک روپیہ لوں گا؟۔کبھی نہیں سُنا!!!۔بلکہ اِس کے برخلاف یہ ارکانِ اسمبلی ( قومی اور صوبائی) اپنی مراعات بڑھانے کی بات کرتے ہیں جب کہ اِن کی اکثریت پر ’ رب کا بڑا فضل ‘ ہے۔

دوسری بات یہ کہ صدر ٹرمپ نے بوئنگ کمپنی کو کہہ دیا ہے کہ اُن کو نیا بننے والا صدارتی طیارہ درکار نہیں بلکہ بحیثیت صدر وہ اپنے ذاتی طیارہ میں سفر کرنا زیادہ پسند کریں گے۔مانا کہ اُن کا ذاتی طیارہ پُر تعیش ہے مگر اِس کے باوجود اس نئے بننے والے صدارتی طیارے کی مجوزہ قیمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں ملکی خزانے کو فضولیات میں کیوں خرچ کروں؟ اب اس سلسلے میں وہاں ایک گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ مجوزہ سرکاری طیارے میں تو میزائل شکن نظام ہے جبکہ صدر ٹرمپ کے ذاتی جہاز میں ایسی کوئی بات نہیں وغیرہ۔

ٹرمپ بھی اس بات پر مصر ہیں کہ...... نہیں لینا ۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہونی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اپنے ملک کے لئے کام کرنے والے یاد رہ جاتے ہیں ..... امریکہ کے کئی صدور آئے اور چلے گئے مگر آنجہانی کینیڈی کوئی کوئی ثابت ہوا۔


آج مجھے قائدِ اعظم مُحمد علی جناحؒ بہت یاد آ رہے ہیں ..... ایک روپۂ بطور تنخواہ ..... اپنی جیب سے جہاز کا سفر.... کیا آج ہمیں کوئی اور محمد علی جناح ملے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
( یہ کالم  روزنامہ نوائے وقت کراچی کے  ١٥ دسمبر ٢٠١٦ کے صفحہ فن و ثقافت میں شایع ہوا )
















 


Comments

Popular posts from this blog