Kahaan Woh.... Kahaan Yeh... Zulfiqar Ali Bhutto say Bilawal Zardari Tak, Peoples Party Ki siyasi Taarikh-4



کہاں وہ..... کہاں یہ..... ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک ۔4
تحریر شاہد لطیف

  بینظیر کے بھائی، مُرتضیٰ بھٹو کو حکومت میں حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے اپنے بہنوئی کے اثر و نفوز اور بہن کی پالیسیوں سے شدید اختلاف تھا جِس کی وجہ سے دونوں کے باہمی تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ نصرت بھٹو کی ہمدردیاں مُرتضیٰ کے ساتھ تھیں جِس سے بینظیر کا خوف زدہ ہونا فطری ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ 

مرتضیٰ بھٹونے بینظیر حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف آواز اُٹھانی شروع کر دی اورایک سیاسی اجتماع میں پیپلز پارٹی میں انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کر دیا۔غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے بینظیر کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت ، اُن کے شوہر پر بد عنوانی کے الزامات اور مرتضیٰ کے لئے نصرت بھٹو کی حمایت یہ وہ کھلے اشارے ہیں جِن سے پارٹی انتخابات میں بینظیر کو شکست ہوتی۔یوں مرتضیٰ بھٹو وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے چیر مین بن جاتے۔ بالآخر ۲۰ ستمبر، ۱۹۹۶ کو مُرتضیٰ بھٹو کراچی میں اپنے گھر کے سامنے مبیّنہ طورپر پولیس کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔یہ غیر حل شدہ کیس پیپلز پارٹی کے دامن پر ایک بد نما داغ ہے کہ بہن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھائی سڑک پر پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہو کر اسپتال میں فوت ہو جائے ۔ رائے عامّہ بینظیر کے خلاف ہو گئی۔


 اُدہر ۲۰ جولائی ۱۹۹۶ کو امیر جماعتِ اِسلامی ،قاضی حسین احمد نے بینظیر حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف لانگ مارچ کرنے کی بات کی جِس کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی حمایت کر دی۔ مظاہر ے اسی سال ۲۷ اکتوبر میں شروع ہو گئے۔

 بینظیر کی دوسری وزارتِ عظمیٰ متنازعہ امور میںگھری نظر آتی ہے۔ مُرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بینظیر کی کابینہ کے ممبر اور اُن کے شوہر آصف زرداری پر اِس قتل کی فردِ جُرم عائد کر دی گئی تاہم بعد میں وہ بری ہو گئے۔ زرداری صاحب پر پاکستان ائر فورس کے لئے Dassault Mirage 2000 ( ڈا سُو) کے سلسلے میں رشوت لینے کا بھی الزام لگ گیا۔

بینظیر نے ۱۹۹۵ میں ایڈمرل منصور الحق کو پاکستانی بحریہ کا سربراہ مقرر کیا ، جِن سے اُن کے گھریلوتعلقات تھے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ بینظیر پر پہلے ہی خاصے الزامات تھے اب فرانسیسی آبدوزوں کا کمیشن لینے پر ایڈمرل کے ساتھ آصف زرداری کا بھی نام آنے لگا ۔ بینظیر کی ساکھ بہت متاثر ہوئی جو اُ ن کی حکومت کے خاتمہ کا موجب بنی۔ دوسری دفعہ وزیرِ اعظم بننے پر بینظیر نے اپنے والد کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کیا جب اُنہوں نے عبدالوحید کاکڑ صاحب کو چیف آف دی آرمی اسٹاف مقرر کیا۔جب کہ ائر چیف مارشل جناب فاروق فیروز خان کو چیرمین جوائنٹ چیف آف دی اسٹاف مقرر کیا جو اُس وقت ( غالباََ اب تک) اِس منصب پر فائز ہونے والے پاکستان ائر فورس کے پہلے افسر ہیں ۔ بینظیر کے پیشِ نظر فوج سے اچھے اور ہموار تعلقات ملک کے سیاسی استحکام کے لئے بہت ضروری تھے۔اُنہوں نے یہ سب نامزدگیاں بہت خوب کیں ۔ ۱۹۹۵ اور ۱۹۹۶ میں ان تھک محنت سے بالآخر بینظیر فوج سے مضبوط روابط رکھنے میں کامیاب ہو گئیں۔ رہے صدرِ مملکت تو وہ خود اُنہوں نے چھان پٹک کر چنے تھے اور وہاں سے کبھی کسی مخالفت کا اشارہ نہیں مِلا ۔ بینظیر نے جمہوری مزاج رکھنے والے اعلیٰ افسران کو بھی دیکھ بھال کر ترقیاں دیں۔اِن تقرریوں پر صدر لغاری نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ ابھی بھائی کا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ خلافِ توقع نومبر ۱۹۹۶ میں اُن کی پارٹی کے اپنے صدر، فاروق احمد لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کو استعمال کرتے ہوئے بد عنوانی اور دیگرالزامات  کے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔بینظیر بھٹوکے لئے یقیناًیہ بڑا جھٹکا تھاوہ سپریم کورٹ میں اس امید پر گئیں کہ صدر لغاری کے اِس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا جائے گا لیکن....... عدالتِ عظمیٰ نے صدر لغاری کے اس جواز کو ۱ ۔ ۶ کے تناسب سے درست قرار دیا۔فوج کے کئی ایک ذمّہ دار یہ چاہتے تھے کہ بیچ کا کوئی راستہ نکلے اور بینظیر کی حکومت قائم رہے۔مگر جلد ہی صدرِ مملکت نے معلوم کروا لیا کہ اعلیٰ فوجی قیادت کیا سوچ رکھتی ہے لہٰذا جارحانہ اقدام کرتے ہوئے جنرل کاکڑ (آرمی چیف)، جنرل خٹک (چیف آف ائر اسٹاف) اور ایڈمرل حق ( چیف آف نیول اسٹاف ) کی پوری ٹیم کو ڈِس مِس کر دیا۔اور غیر جانبدار ٹیم کو مقرر کیا جو ہونے والے عام انتخابات احسن طریقے سے کروا سکیں۔ بینظیر کی کابینہ کے کئی ممبران اور وزراء جیل چلے گئے ۔خود بینظیر صاحبہ کو کئی سنگین الزامات کا سامنا تھا بحرحال وہ اپنے تین بچوں کے ہمراہ دوبئی چلی گئیں۔ جبکہ زرداری صاحب ۸ سال کے لئے جیل بھیج دیے گئے۔


بظاہر بینظیر کے سِتارے اُن کی دوسری مدّت میں زیادہ تر گردِش ہی میں نظر آئے لیکن اِس کا مطلب یہ ہر گَز بھی نہیں کہ اُن کی شخصیت میں کوئی کمی تھی یا ملک کو درپیش مسائل حل کرنے اور دیگر امور درست چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھیں۔اس سلسلے میں ایک مثال آئی۔ایس۔ آئی کی وہ رپورٹ ہے جو ۱۹۹۵ میں بینظیر کو دی گئی کہ بھارتی وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ نے ایٹمی دہماکے کی اجازت دے دی ہے اور وہ کسی بھی لمحہ کیے جا سکتے ہیں۔ جواباََ بینظیر نے فوراََ ہنگامی صورتِ حال سے نبٹنے کی تیاریاں، اور پاکستانی افواج کو انتہائی چوکَس رہنے کے احکامات دیے ۔ایٹمی تنصیبات اور متعلقہ حسّاس ادارے اور مقامات پر ۲۴ گھنٹے انتہائی چوکَس رہنے کو کہا ۔حالات خواہ کچھ ہوں، بادِ مخالف تیز کیوں نہ چلے، اپنے فیصلوں پر عملکر کے دِکھایا۔مشیروں کی فوج نہیں رکھی۔ملکی معاملات میں بھی اُن کی برداشت اور لچک نظر آتی ہے۔ ۱۹۹۹ میں اقتدار میں آنے کے فوراََ بعد جنرل پرویز مُشرف نے بینظیر کی دوسری مدّت کو ’ جمہوری دور ‘ کہا۔

۱۹۹۸ میں بینظیر دُوبئی میں اپنی ذاتی رہایش گاہ میں خود ساختہ جِلا وطن ہو گئیں اور یہیں سے پارٹی معاملات انجام دینے لگیں۔اِسی دوران بین الاقوامی اخبارات میں گردش کرتی مالی کرپشن رپورٹوں نے بینظیر کی ساکھ کہ مزید نقصان پہنچایا ۔نیو یارک ٹائمز کی ۱۹۹۸ کی ایک رپورٹ میں بینظیر اور اُن کے خاندان کے ۱۰۰ ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ’ آف شور ‘ اثاثوں اور ۳۵۰ ایکڑ پر محیط مشہورِ زمانہ سرے محل کا ذکر کیا۔اگست ۲۰۰۳ میں ایک سوئس عدالت نے بینظیر اور آصف زرداری کو ۲ سوئس کمپنیوں سے حکومتِ پاکستان کا ایک سرکاری کنٹریکٹ لینے پر کِک بیک کی صورت رشوت لینے کا مجرم قرار دیا۔ 

صدر مُشرف کے این۔آر۔ او کے تحت اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات سے عام معافی ملنے اور ۲۰۰۸ کے عام انتخابات کی تیاری کے لئے بینظیر دُوبئی اور لندن میں ۸ سال خود ساختہ جِلاوطنی کے بعد ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۷ کو پاکستان پہنچیں۔یہ معافی بینظیر کے ساتھ اور دیگر سیاسی لیڈران کو بھی دی گئی ماسوا میاں نوازشریف کے ( تو گویا آپ نے خود طے بھی کر لیا کہ میاں صاحب نے مالی کرپشن نہیں کی)۔اِس طرح بینظیر اور زرداری صاحب پر کرپشن کے تمام کیس ختم کر دیے گئے۔اِس کے جواب میں بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب کے بائکاٹ نہ کرنے پر اتفاق کیا۔وہ ۱۹ تاریخ کو کراچی آئیں جہاں کارساز کے مقام پر اُن کے قافلے کی ایک بس پر حملہ ہوا جِس سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ؛ وہ البتہ محفوظ رہیں۔ ۲۷ دسمبر۲۰۰۷ کو لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے واپسی پر بینظیر قتل کر دی گئیں۔
 ( جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 خاکسار کا یہ مضمون، یکم جولائی 2017  کے  روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ ١١ پر کالم الٹ پھیر میں شایع ہوا .




















Comments

Irfan Saeed said…
Very good Written well done
ulatphair said…
عرفان صاحب آپ کا بہت شکریہ کہ وقت نِکال کر کمتر کا مضمون پڑھا۔
Rizwan Quraishi said…
very good written but missing/tangled digits in dates.
ulatphair said…
کیسی تاریخیں؟

Popular posts from this blog