نا اہل
نا اہل
تحریر شاہد لطیف
1987 کے اوائل میں کسی کام سے لاہور آناہوا، تو ، تھانہ قلعہ گوجر سنگھ بھی جانا ضروری خیال کیا۔ یہاں ترین صاحب ایس ایچ او کے فرائض انجام دے رہے تھے اور موصوف کے ساتھ کراچی سے سلام دعاء تھی۔حال احوال پوچھنے کے بعد حسبِ معمول ان سے کسی عجیب و غریب کیس کے بارے میں پوچھا تو جواب میں وہ حوالات کی طرف لے چلے۔ ان حوالاتیوں میں سر جھکائے بیٹھے، سکندر نامی نوجوان کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ آؤ اس سے ملو یہ خود عجیب و غریب ہے۔ یقین مانیں اس شخص کی سنائی ہوئی کہانی نے ایک طویل عرصہ میرے اعصاب پر ہتھوڑے برسائے رکھے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ میرا نام سکندر ہے۔حالات مجھے ڈاکووں کے گروہ میں لے آئے۔ لیکن اِس میں کچھ میرا ارادہ بھی شامِل تھا ۔ شروع میں صرف مشاہدے کے لئے ڈاکے کی وارداتوں میں ساتھ جاتا رہا ۔ اسکے بعد وارداتوں کی ریکی کرنے کی زمہ داری سونپی گئی۔یوں ایک دن ایسا بھی آ گیا جب میں نے خودبحیثیت ڈاکو، ایک تجربہ کار ڈاکو کی قیادت میں ڈاکے پر جانا تھا‘‘۔
َِِِِ ’’ وہ لاہو ر کے دو لت مند وں کی بستی ماڈل ٹاؤن تھا، جس کے ایک بنگلے میں ہمیں یہ واردات کرنا تھی۔ ریکی کے حساب سے ِ واردات کے وقت گھر میں دو بچے، ان کی ماں ، بچوں کی دادی اور خانساماں موجود ہونا تھے۔ واردات کا آغاز عین منصوبہ کے مطابق ہوا۔ اس سلسلے میں دیئے جانے والے احکامات پربے چوں و چراں عمل کیا اور کروایا جا رہا تھا ۔ بظاہر حالات قابو میں تھے یوں میرا یہ ڈاکہ صحیح ا ور کا میاب جا رہا تھا ۔ زیورات و نقدی باندھنے کے بعد پرائزبونڈوں کی گَڈیاں اکھٹی کر رہا تھا کہ گھر کی ایک بزرگ خاتون بے خوف آگے بڑ ھیں اور کہا کہ یہ کسی کی امانت ہیں اور اللہ رسول ﷺ کا واسطہ دیا کہ امانت چھوڑ دوں‘‘۔اتنا کہہ کر وہ کچھ دیر بالکل خاموش رہا، پھر تھوڑی دیر بعد اس نوجوان نے کہنا شروع کیا: ’’ کاش!!! میں یہ واسطہ والی بات نہ سن سکتا۔ مجھ کو ایسا لگا کہ زمین نے میرے پاؤں جکڑ لئے۔سر کو بہت سخت چکر سا آیا۔ میں نے وہ سب کچھ ان بزرگ خاتون کے ہاتھ میں رکھ دیا‘‘۔
میں چپ نہ رہ سکا۔بے ساختہ کہہ اٹھا ’’ سکندر !! یہ واسطے والی بات ہضم نہیں ہو پا رہی۔دیکھو تم نے ایک ڈاکو کا پیشہ اختیار کیا تھا کوئی سماجی خدمت کرنے والی این جی او نہیں۔ اللہ واسطے کے لحاظ، انسانیت اور رحمدلی کے جذبات تو اس پیشہ کے خواتین و حضرات گھر پر رکھ کرہی کام پر نکلتے ہیں ۔ ایسا تم نے کیوں کیا؟ ‘‘۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نظریں نیچی کیئے خاموشی سے حوالات کے تباہ حال فرش کو تکتا رہا پھر کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے ساری توانائی جسم سے نچوڑ لی ہے۔میں باہر آ کر اس بنگلہ کے دروازہ پر بیٹھ گیا۔ میرا ساتھی دوڑ کے آیا۔گھر کے اندر سے زور زور کی آوازیں آنے لگیں ۔سامنے سڑک پر بھی کاریں آ رکیں۔ شاید اس گھر سے فون کر کے ڈاکے کی واردات کی اطلاع آس پڑوس کو دے دی گئی تھی۔ اہلِ محلہ ہمارے سامنے آ گئے میرے ساتھی نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی اور اس کی آڑ میں فرار ہو گیا ۔ اچانک کوئی پکارا یہی ہے جانے نہ پائے۔ کئی ایک لوگ اس پر میری جانب لپکے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے میری دھنائی شروع ہو گئی ‘‘۔
’’ تمہارے پاس بھی تو ہتھیار تھا، تم ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے کیوں فرار نہ ہو سکے؟‘‘۔’’ جی ہاں !! میں آسانی سے وہاں سے نکل سکتا تھا، مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھ کو اللہ رسول ﷺ کے واسطہ کو سن کر نہ جانے کیا ہو گیاکہ پورا جسم کانپنے لگا اور سخت سردی سی محسوس ہونے لگی ‘‘۔
’’ تو گویا تمہاری یہ ڈکیتی ناکام ہو گئی ‘‘۔
جواب میں اس نے خاموشی سے سر کو جھکا لیا اورکہا : ’’ الٹا پبلک نے مجھے جانوروں کی طرح سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ اگر پولیس وقت پر نہ پہنچتی تو وہاں پر تو میرا بُھر کس نکل چکا ہوتا‘‘۔
’’ ترین صاحب! یہ کیسی بات کر رہا ہے؟۔کیا اِس کی بات سچ ہے؟‘‘۔میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ ہاں۔یہ بد نصیب ٹھیک کہتا ہے‘‘۔ ترین صاحب نے ’ بد نصیب ‘ زور دے کر ادا کیا۔
’’ بد نصیب کیوں؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ وہ ایسے کہ تُم کو اِس نے اپنی پوری کہانی نہیں سُنائی۔شاید اِس قِسم کی کوئی کہانی اب تک تُم نے نہیں سُنی ہو گی‘‘۔ترین صاحب نے جواب دیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ کیوں سِکندر صاحب! تمہاری ایسی کیا انوکھی کہانی ہے؟‘‘۔میں نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مگر اپنایت سے سوال کیا۔
’’ میری تو ایسی کوئی بھی کہانی نہیں رپورٹر صاحب‘‘۔نہ جانے مجھے اُس نے کیوں رپورٹر سمجھ لیا۔
’’ ارے بھئی نہیں سُنانا چاہتے تو نا سہی۔ پھر کبھی سُن لوں گا۔ترین صاحب کی باتوں سے تو یوں لگتا ہے کہ تُم اِن کے تھانے میں اکثر ا ندر باہر ہوتے ہی رہتے ہو۔ تو کیوں میا ں مُقدّر کے سِکندر!! آئندہ اِس حوالات میں مِلو گے یا ۔۔۔۔؟‘‘۔ میر ے اِس نا مکمل جُملے پر سِکندر کے ہونٹوں پر ایک مُسکراہٹ اُبھری۔
’’ میں اپنے آپ کو بد نصیب تو نہیں کہتا ۔ ہاں! البتہ شاید نا اہل ہوں‘‘۔
’’ ارے شاید نہیں۔یہ تو ہے ہی پرلے درجے کا نا اہل‘‘۔ترین صاحب نے تو ایک دم ہی 25 کِلو کی بات کر دی۔
اب تو مجھے بھی اِس سِکندر نامی لڑکے میں دِلچسپی پیدا ہونے لگی۔
’’ وہ کِس طرح سے نا اہل ہو گیا؟‘‘۔میں نے سوال کیا۔
’’ آؤ! میرے دفتر میں آ جاؤ، وہیں پر بات کرتے ہیں‘‘۔یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے ایک سپاہی کو کہا کہ وہ سِکندر کو اُن کے کمرے میں لے آئے۔
’’ حوالاتی کو؟‘‘۔میں نے حیرت سے سوال کیا۔
’’ ہاں! اِسی کو ‘‘۔سِکندر کی جانب اِشارہ دیتے ہوئے ترین صاحب نے کہا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ایس ایچ او کا دفتر ایک عام سا مگر صاف سُتھرا کمرہ تھا ۔ہمیں وہاں بیٹھے چند لمحہ ہی ہوئے ہُوں گے کہ ایک سِپاہی سِکندر کو لے آیا۔
’’ بیٹھو سِکندر!‘‘۔ترین صاحب نے دوستانہ انداز میں اُس سے کہا؛ اور وہ ہم دونوں کے رُخ کی طرف رکھی ہوئی کُرسی پر بیٹھ گیا۔میں نے غور سے اُس کے سراپا اور چہرے کو دیکھا ۔ وہ ایک عام نوجوان لگا جِس میں مجھے تو کوئی چونکا دینے والی بات نظر نہیں آئی۔حوالات میں تو وہ مُسلسل نگاہ نیچی کئے سر جھکائے بیٹھا تھا لیکن یہاں اُس کے آ نے کی چال، بیٹھنے کا طریقہ بالکل ہی مُختلف محسوس ہوا۔ ذ ہنی طور پر چاق و چوبند اور ہر قِسم کے سوالات کے مُقابلے کے لئے تیّار ۔
اِسی لمحہ مُجھے بے اِختیار ہنسی آ گئی۔حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ترین صاحب کے بجائے سِکندر نے ہنسی کا سبب دریافت کیا۔
میں نے سِکندر کی جانب دیکھتے ہُوئے جواب دیا: ’’ مجھے تنویر نقوی مرحوم کا لکھا، ماسٹر عنایت حُسین کی موسیقی میں فِلم انار کلی میں مادام نورجہاں کا یہ گیت یاد آ گیا ہے‘‘۔
کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُناؤں
’’ غالباََ یہ منظر شہنشاہ اکبر کے دربار کا ہے جہاں انار کلی کو بُلوا کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے‘‘۔ترین صاحب بولے۔
’’ ایک تو پتہ نہیں کیوں آپ پولیس والے ہر ایک جگہ کو تھانہ ہی سمجھتے ہیں۔اکبر بادشاہ کا دربار ہے قلعہ گوجر سنگھ کا تھانہ تو نہیں‘‘۔ میں نے مذاق میں کہا۔جب کہ دِل ہی دِل میں اُن کے ذوق کی داد دے رہا تھا۔
اِس ہلکے پھلکے ماحول کا سِکندر پر بہت خوشگوار اثر ہوا اور وہ بھی زیرِ لب مُسکرانے لگا۔
’’ سِکندر، ‘‘ میں نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔’’ نہ میں کوئی رپورٹر ہوں نہ تفتیشی افسر۔ایک معمولی سا لکھنے والا ہوں اور یہ
ترین صاحب ہیرا آدمی ہیں۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کبھی کسِی بے قصور پر ہاتھ تک نہیں اُٹھایا ہو گا اور۔۔۔‘‘۔
’’ بَس کافی ہو گیا۔سِکندر اب کام کی بات کرو‘‘۔میری تعریفی بات کا ٹ کر ترین صاحب بولے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ جناب ! میں نے این ای ڈ ی انجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی سے سِول انجینیئرنگ کی ڈِ گری لی ۔پھر کچھ ہی دیر بعد مجھے اِسلام آباد میں ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازمت مِل گئی جورہائشی منصو بے بناتی تھی۔مجھے جلد ہی علم ہو گیا کہ ہر ایک مرحلہ میں یہ لوگ بے ایمانی کرتے ہیں۔پھر ایک ایسا بھی وقت آیا کہ میری ذمہ داری کے کام میں میں بھی کہا گیا کہ بے ایمانی کی جائے۔آپ خود سوچئے کہ اپنے دستخط کے ساتھ بے ایمانی کیسے کر سکتا تھا میں مالِکان کے پاس چلا گیا۔اُنہوں نے میری بات بہت غور سے سُن کر ا کونٹنٹ بُلوایا، میرا حساب کیا اور میں اُسی وقت نوکری سے باہر ہو گیا ۔جب میں نے تجربہ کا سرٹیفیکیٹ مانگا تو یہ لکھ کر دیا کہ میں غیر ذمّہ دار اور نا اہل ہوں‘‘۔
’’ یہ تو کوئی خاص کہانی نہیں۔بہت عام سی بات ہے‘‘۔ میں نے کہا ۔
’’ آگے بھی تو سُنو! ‘‘۔ترین صاحب بولے۔’’ لڑکے پھر کیا ہوا ؟ تُم میرے پاس پہلی دفعہ کیسے آئے؟‘‘۔
’’ ارے!!! تو کیا یہ اِس حوالات میں آتے جاتے رہتے ہیں؟‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ یہ خود ہی بتائے گا‘‘۔ترین صاحب سِکندر کی طرف دیکھ کر بولے۔
’’ بینکوں کے سُود ی کاروبار ، آسان اِقساط پر موٹر سائکلوں ، کاروں اور کریڈٹ کارڈوں کا بہت عروج تھا۔مجھے بھی ایک نجی بینک میں شعبہِ وُصولیات Recovery Department میں ملازمت مِل گئی۔ایک آدھ مہینہ تربیت ہوئی پھر سینئر کے ساتھ ڈیوٹی لگی اور مجھے وصولی کا ٹارگٹ دیا گیا۔پہلا کام ایک موٹر سائکل کی اِقساط کا تھا جو عرصہ چار ماہ سے واجب الادا تھیں۔جب بھی فون کروں یہی جواب مِلتا تھا کہ چھ ماہ سے نوکری چھوٹی ہوئی ہے ، ملتے ہی قِسطیں شروع ہو جائیں گی۔بالآخر ایک شام میں اپنے سینئر کے ساتھ مطلوبہ شخص کے ہاں چلا گیا۔اُس نے وہی بات دُھرائی۔میں نے اپنی مجبوری بتلائی کہ قسط نہیں آئی تو میری اپنی نوکری خطرہ میں آ جائے گی۔واپسی پر میرے ساتھ گئے افسر نے مجھ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولانا عبدالستار ایدھی کا دفتر نہیں، بینک ہے، آپ جناب سے بھلا کبھی قسطیں ملیں؟۔اور 2 کریڈٹ کارڈ اور 15 موٹر سائکلوں کی قِسطوں کی وصولی کا حتمی ٹارگٹ دے دیا۔میں فرداََ فرداََ ہر شخص کے پاس گیا۔ایک آدھ کو چھوڑ کر ، باقی سب کی ایک ہی مِلتی جُلتی کہانی تھی ۔ میرے ساتھ وصولیاتی ٹیم میں جو افراد گئے وہ بات چیت میں ٹھیک نہیں تھے۔گھر کی خواتین اور خود اُس شخص کی عِزت کا کچھ بھی خیال نہیں کر رہے تھے۔میں نے آگے بڑھ کر اپنی وُصولیاتی ٹیم کو ایسا کرنے سے روکا۔واپس آیا تو مجھ سے پہلے میرے اُن ساتھیوں نے میری رِپورٹ کر دی اور یوں میں بینک کی نوکری سے بھی باہر ہوا۔اِس داغ کے ساتھ کہ میں بینک کی ریکووری کے لئے سخت نا مُناسب ہوں‘‘۔
’’ اُسی دوران کریڈٹ کارڈ کی و صولی کے ایک کیس میں کسی نے اپنی عزت کی خاطر خودکشی کر لی۔جو ٹیم اُس سہ پہر وصولی کو گئی تھی ، میں بھی اُس میں شامِل تھا۔بخدا میں نے ہر گِز کوئی بد تمیزی نہیں کی بلکہ میرے ساتھ گئے ہوئے عادی وصولنے والوں کو بھی میں نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔مگر جو تماشا بننا تھا وہ تو بنا۔جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں کہ اُسی شام مجھے بینک کی نوکری سے نکال دیا گیا اور اِسی رات اُس بد نصیب نے خود کشی کر لی۔لواحقین نے بینک اور اُس کی و صولیاتی ٹیم کے خلاف پرچہ کرا دیا۔تھانے میں بھی اُس شخص کے لواحقین اور اُس کے محلہ داروں نے مجھے پہچان کر بیان دے دیا کہ میں بھی اُس ٹیم میں تھا جبکہ باقی افراد روپوش تھے۔ بہر حال ہفتہ بھر میں اِس حوالات میں رہا پھر عدالت میں دوسری پیشی پر میری جان چھوٹی اور کسی بھی بینک کی نوکری کے دروازے مجھ پر بند ہو گئے ‘‘۔
’’ آسمان سے گرا کُجھور میں اٹکا۔آپ ایس ایچ او صاحب سے پوچھ لیں کہ مشکل سے ایک ہفتہ گُزرا ہو گا کہ بہت زلیل و خوار ہو کر دوبارہ اِسی حوالات میں لایا گیا‘‘۔
’’ ہاں ایسا ہی ہے ‘‘۔ ترین صاحب بولے۔
’’ اِس کے بعد میں نے ایک نامور فارمیسی میں سیلز مین کی ملازمت کر لی ۔کام کرتے ہوئے سات دِن ہوئے تھے جب میں نے 2500 روپئے بطور ایڈوانس لئے۔اُسی شام اپنے مُحلہ کے ایک اسٹور سے چند ضروری اشیاء خریدیں اور 500 روپئے کا ایک نوٹ دیا۔بس نوٹ دینے کی دیر تھی کہ کیش کونٹر پر شور مچا کہ یہ جعلی نوٹ ہے۔ کریڈٹ کارڈ اور وصولیات کے سلسلہ میں میری تصاویر بھی اخبارات میں آئی تھیں اور ٹی وی چینلوں میں مجھے ایسے بنا کر پیش کیا گیا گویا میں کوئی بہت بُرا اور ظالم شخص ہوں اور پھر ایک ہفتہ حوالات میں بند ہونے کا مُحلہ میں پہلے ہی چرچا تھا؛ اب اِس جعلی نوٹ چلانے میں کسی ایک نے بھی میری بات نہیں سُنی کہ یہ پیسے تو مجھے فارمیسی والوں نے دئیے ہیں لہٰذا اُن سے پوچھا جائے۔ اسٹور والوں نے میرا تعلق ، جعلی نوٹ چلانے والے ایک منظم گروہ سے فوراََ جوڑ دیا ۔ مجھے مار مار کے اِس تھانے میں دوبارہ پہنچا دیا گیا‘‘ ۔
’’ ترین صاحب واحد آدمی ہیں جنہوں نے پہلے بھی ، اور اِس دفعہ بھی ، میری بات سُنی اور اُس پر یقین بھی کیا۔اِن کے گھر کا جو کھانا آتا تھا اُس میں سے مجھے بھی حصہ دیتے رہے‘‘۔یہ بات کہہ کر اُس نے ترین صاحب کی طرف دیکھا جِن کا چہرہ کسی بھی قِسم کے تاثرات سے عاری تھا۔
’’ یہ ناکام ڈاکے کی کیا کہانی ہے؟ ‘‘۔میں نے سِکندر سے سوال کیا۔
’’ یہ کیا بتائے گا۔کیا کبھی کسی نے ناکام ڈاکے کی اصطلاح سُنی؟ بالکل بھی نہیں سُنی ہو گی۔ایسا کبھی ہو ا ہی نہیں ہو گا۔اب تُم خود دیکھ لو اِس نا لائق کو، جو کام کیا وہ ناکام، او ر تو اور ، ناکام ڈاکہ مار کے ڈاکووں کو بھی بدنام کر گیا۔چل بتا کہ ڈاکووں کے گروہ میں کیسے جانا ہوا؟ ‘‘۔ترین صاحب نے کہا۔
’’ اِس بات کو رہنے ہی دیں‘‘۔اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا ۔ مجھے ایسے لگا کہ سِکندر بھی خوش گوار مُوڈ میں ہے۔
’’ جہاں اتنا سب بتایا تو یہ بھی بتا دو ‘‘۔میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ جناب یہ حوالات ہے، جہاں مجھ جیسے تو خیر بہت زیادہ آتے جاتے ہیں لیکن کبھی ڈھیٹ اور عادی مُجرم بھی آ جاتے ہیں۔ دوسری دفعہ تو میں 14 دِن حوالات میں رہا پھر جعلی نوٹ کے سلسلہ میں 6 ماہ جیل بھی گیا۔ جب جیل میں آیا تو علم ہوا کہ تھانے اور حوالات تو اسکول ہوتے ہیں اور جیل گویا کالج۔یہاں کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ میں بے قصور ہوں مگر وہ کسی نہ کسی عدالت سے سزا یافتہ ہو کر مُجرم کی حیثیت سے ہی آتا ہے۔میرا بھی درجہ مُجرم کا تھا۔جیل میں بڑے بڑے اُستاد، مُستند چور، جیب تراش، ڈکیت، نوسرباز، رسّہ گیر ، فراڈیے، اسمگلر جواری وغیرہ ہم جیسوں کے لئے کالج پروفیسر تھے۔ آپ میں بس کچھ سیکھنے کی لگن ہو تو جیل میں اپنے قیام سے یقیناََ کچھ سیکھ کر باہر آ سکتے ہیں۔میری وہاں پپو ا ور خاور ڈکیت سے ملاقات ہوئی۔اِن میں ایک لاہورکی پوش کالونیوں میں واردات کرتا تھا اور دوسرا ہمہ وقت کرایہ پر دستیاب تھا ، کہیں بھی کام کرنا ہو، یہ حاضر۔( نام اور مقام بدل دئیے گئے ہیں) ۔میں چھ ماہ کی جیل کے بعد رہا ہو کر گھر آ گیا‘‘۔
’’ حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ وہی محلہ دار، جو بڑھ بڑھ کر میرے خلاف گواہیاں دے رہے تھے اور میری مار پیٹ بھی کی تھی، وہی اب ایسی عزت سے پیش آ رہے تھے کہ جیسے کہ میں حج کر کے آیا ہوں۔ جب میں اُسی اسٹور میں گیا جہاں پر جعلی نوٹ چلانے کے الزام میں مجھے حوالات اور اُس کے بعد جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی؛ اُن کا سلوک تو 360 کے زاویے پر بدلا ہوا پایا۔ وہ میرے آگے بچھے جاتے تھے کہ سکندر صاحب جو دِل کرے لیجئے، پیسے آتے رہیں گے‘‘۔
’’ یہ میرا آبائی گھر تھا جہاں کم از کم ہر ماہ کرایہ دینے کی تلوار تو نہیں لٹکتی تھی۔پھر بھی کام کاج تو کرنا ہی تھا۔میرا دِل نام نہاد شرافت اور اب ایسی منافقت سے اُکتا گیا۔مجھے اپنی اوقات اچھی طرح سے معلوم تھی۔یہ جھوٹی عزت میرے ڈر کی وجہ سے کی جا رہی تھی، ورنہ میرے پیٹھ پیچھے مجھے کِن الفاظ میں یاد کیا جاتا تھا میں بخوبی جانتا تھا۔ میری کسی سے کوئی دوستی نہیں رہ گئی تھی لہٰذا اب میں اور میرے جیل کے ساتھی تھے۔ میں ملاقاتی کی حیثیت سے اکثر پپو سے مِلنے جایا کرتا۔وہیں ایک دِن اُس نے میرے دِل کی بات میری زبان سے نکلوا دی کہ حق حلال کی بہت کوشش کی لیکن مِلا کیا؟ حوالا ت اور جیل ؟ ۔ اب مجھے ڈاکو وں میں شامِل ہو جانا چاہیے۔بس اُس نے مجھے کچھ نا م اور پتے بتائے اور یوں اُس کے حوالے سے میں ڈاکووں میں شامِل ہو گیا۔باقی کی کہانی آپ جانتے ہی ہیں‘‘۔
’’ اب تُم نے کیا سوچا ہے؟ کیا کرو گے؟‘‘۔میں نے سوال کیا۔
’’ میں تو نا اہل ہوں نا۔ کچھ اور سہی ! ‘‘۔اِس جواب کے بعد سِکندر نے اپنا سر جھکا لیا۔
ترین صاحب آپ اِس کا کیا کریں گے؟‘‘۔ میں نے سوال کیا۔
’’ میں نے کیا کرنا ہے۔صبح اس کو ناشتہ کروا کر ہم بھی اس ناکام ڈکیتی کے ملزم کو اللہ رسول ﷺ کے واسطے چھوڑ دیں گے‘‘۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اختتام
( " نا اہل " یہ تحریر ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ، اکتوبر ٢٠١٦ کے شمارے میں شایع ہوئی تھی )
Comments