افریقیات -1
افریقیات -1
تحریر شاہد لطیف
افریقہ جانے کا پس منظر :
راقِم کے لئے 1978-79کا زمانہ خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔پہلے گراموفون کمپنی آف پاکستان ، کراچی اسٹوڈیوز سے باقاعدہ صدابندی ، ڈسک کٹنگ ، کیسیٹ ماسٹرنگ وغیرہ کے کام کو سیکھنے کا موقع مِلا، جو کہ خود ایک عجیب ماجرا ہے ۔ دوسرے یہ کہ کسی ارادے یا بھاگ دوڑ کے بغیر، اچانک ہی ’ گڈانی ‘ ، بلوچِستان کے مقام پر نیشنل جیوگرافیک فِلم سوسائٹی کے بیلجیم Belgium فلم یونٹ سے مُلاقات ہوئی ۔ اِن سے موسیقی اور لائیو صدابندی پر بات ہوئی۔ یہ یونٹ پاکِستان سے وسطی اور مشرقی افریقہ جا رہا تھا، اِنہوں نے مجھے اپرنٹس کی حیثیت سے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی اور طے ہوا کہ میں اِس یونِٹ کو اُس ملک کے دارالحکومت کیگالی میں ایک ہفتہ کے اندر رِپورٹ کروں۔
خُدا کی قدرت دیکھئے کہ اُن ہی دِنوں مجھے رُوانڈا Rwanda میں جامعہ کراچی کے ایک دوست نے اپنے پاس آنے کی دعوت دی ہوئی تھی۔جو اُدھر فارمسسٹ کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہ فارمیسی، ایک نامور تجارتی ادارے رام جی گروپ کی ملکیت تھی جو سِگریٹ ایجنسیاں، فارمیسیاں، ٹرانسپورٹ اور تقسیم کاری کا کام کرتا تھا۔ اِن لوگوں کے دادا ، 1947 سے کہیں پہلے، ’ بھڑوچ ‘ ، ہندوستان سے وسطی افریقہ آئے تھے۔میں نے دونوں جگہوں پہ کام کیا۔یعنی رام جی گروپ اور نیشنل جیوگرافیک فِلم سوسائٹی۔ اُس فلم یونٹ میں اپنے قیّام کے دوران ، اور کچھ اُن علاقوں میں اپنے سفر میں پیش آنے والے واقعات اور مُشاہدات لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ممکن ہے آپ کو پسند آئیں۔
برِّ اعظم افریقہ کے بارے میں تقریباََ سبھی کو علم ہے کہ یہ شمالی، جنوبی، مشرقی، مغربی اور وسطی حصّوں پر مُشتمِل ہے۔ کرکٹ کے شائقین جنوبی افریقہ کے مشہور شہروں اور مُقامات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
’ جادوگر ڈاکٹر ‘ سے خاکسار کامیاب علاج کرانا :
اب میں ایک ایسی شخصیت کا ذِکر کروں گا جو اُس تہذیب اور ثقافت کا بہت ہی اہم عنصر تھا۔وہ بستی کا ’ دوا دارو ‘ والا تھا۔اِس کو فِلموں اور کہانیوں میں ’ جادوگر ڈاکٹر ‘ کے نام سے پُکارا جاتا ہے ۔لوگ دور دراز علاقوں سے اِس کے پاس شفاء حاصل کرنے آتے اور بستی میں اِس کی بہت عزت ہُوا کرتی تھی ۔ دراصل اُن کا دین مذہب تو کوئی تھا نہیں، توہم پرستی عام تھی۔پھر صحت کے
جُملہ مسائل حل کرنے کے لئے اِن دو ر افتادہ بستیوں میں بھلا ایک مُستند میڈیکل ڈاکٹر مُستقل کیوں کر آنے لگے؟ یہاں اِس مسئلہ سے نبٹنے کے لئے اِن جادوگر ڈاکٹروں کی اہمیت محسوس ہوتی ہے۔جڑی بوٹیوں سے موثر علاج نسل در نسل اِن کے خاندان میں چلا آ رہا ہے۔
نام سے تو یہ ایک ہیبت ناک صورت والا وحشی شخص محسوس ہوتا ہے ، جِس کے مونہہ سے خون ٹپک رہا ہو ، جو جادو منتر سے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہو گا ۔مگر حقیقت میں راقِم کو تو یہ اِس سب سے اُلٹ نظر آیا۔
کرنا خُدا کا یہ ہوا کہ خاکسار کو کسی کیڑے نے کاٹ لیا اور جلد ہی پورے جِسم میں عجب مزاحیہ لیکن قابلِ برداشت درد شروع ہو گیا۔ وہ اِس طرح کہ اگر جِسم کو سر سے پیر تک آ دھا آدھا تقسیم کر لیا جائے تو دائیں طرف کا سر ، دائیں آنکھ، دائیاں کان، دائیں جانب کے دانت، دائیاں بازو بمع ہاتھ، دائیاں کاندھا، دائیں ٹانگ بمع پیر میں درد۔ جب کہ دوسری جانب کا حصہ بالکل ٹھیک۔راقِم فوراََ ہی کیمپ کے میڈیکل ڈاکٹر کے پاس گیا ۔یہ تنزانیہ کے رہنے وا لے تھے جِن کے باپ دادا کبھی بھارتی گجرات سے افریقہ آئے ہوں گے۔میری کیفیت دیکھ کر اُنہوں نے کہا : ’’ کوئی بات نہیں معمولی کہانی ہے ۔ ہمارا ( ایلو پیتھی ) طریقہء علاج زیادہ وقت لے گا۔ تُم ایسا کرو کہ نزدیکی بستی کے ’ میڈیسن مین ‘ Medicine man کے پاس چلے جاؤ امکان ہے کہ ایک ہی نشست میں یہ درد جاتا رہے گا ‘‘۔
’’ جادو گر ڈاکٹر کے پاس؟ ‘‘۔ میں نے حیرت سے سول کیا۔
’’ ہاں بالکل! یہاں اِس کو ’ اوم لینو ‘ کہا جاتا ہے‘‘۔ڈاکٹر نے کہا۔
شاید میرے چہرے کے تاثرات سے ڈاکٹر نے میری سوچ کا اندازہ لگا لیا۔
’’ گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔وہ عین سائنسی اُصولوں اور طریقوں پر تمہارا علاج کرے گا۔خالص جڑی بوٹیوں کو یہ مختلف شکلوں میں استعمال کراتے ہیں۔بس وہ جیسا کہے ویسا کرنا ‘‘۔
راقِم جنگل سے قریب ترین بستی میں یونٹ کے ایک ساتھی کے ساتھ چلا گیا۔لفظِ اوم لینو ہی کافی رہا اور ہم دونوں کو ایک نسبتاََ اونچے مقام پر بنائی گئی کُشادہ جھونپڑی نُما گھر میں پہنچا دیا گیا۔اندر داخل ہوتے ہی تیز بو نے استقبال کیا۔ کونوں میں کچھ شمعیں روشن تھیں۔کچے فرش پر پکائی ہوئی مٹی کے بڑے بڑے مرتبان رکھے نظر آئے جِن کے نیچے لکڑیوں کی آگ روشن تھی۔ یوں تو اِس جگہ ایک سے زیادہ افراد موجود تھے لیکن اِن میں ایک شخص اپنے حلیہ اور شکل میں ممتاز نظر آیا۔یہ شخص نسبتاََ کم روشنی میں بیٹھا ہوا تھا۔اِس کے قدموں میں ایک گیدڑ ، بالکل کُتے کی طرح سے بیٹھا ، ہم آنے والوں کو بغور دیکھنے لگا ۔فرش پر دو تین قِسم کے سانپ اور ایک مگر مچھ کا بچہ آزادانہ گھُوم رہے تھے۔
اُس نے کسی نا آشنا زُبان میں ہم سے کچھ کہا ۔جب ہماری جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو سواحیلی Kiswahili زبان میں کہا: ’ ’ کری بو Karibo ‘‘۔ اِس کا مطلب ہے خو ش آمدید۔
راقِم نے جواب میں ٹوٹی پھوٹی سواحیلی میں جواب دیا اور یہاں آنے کا مقصد بتایا۔اِن صاحب نے اشارے سے اپنے قریب بلایا۔میری آنکھوں کو غور سے دیکھا، اور کچھ پوچھا جو میں سمجھ نہ سکا۔ تب میں نے اپنے تاثرات اور اشاروں سے اُس کو بتا یا کہ میں اُس کی بات نہیں سمجھ سکا۔
پھر وہ خود اُٹھا اور کورونڈی + سواحیلی زُبان میں مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کی ۔ اُس کے اِشارے پر دو عدد معاونین آگے بڑھے اور راقِم کو ساتھ لے کر ایک بڑے مرتبان کے قریب آئے جِس میں تیز بُو والا محلول اُبل رہا تھا۔یہاں پھر ’ اُوم لینو ‘ نے مجھے کچھ سمجھانے والے انداز میں اُسی نا آشنا زُبان میں بات کی۔کہیں کہیں ایک آدھ سواحیلی کا لفظ ،تسلی کے معنوں میں بھی استعمال کیا۔پھر یکا یک اُنہوں نے مجھ کو سر کے بَل اُلٹا کر کے اُس اُبلتے ہوئے مرتبان کے عین اوپر، لیکن کچھ فاصلہ پر معلق کر دیا۔یقین کیجئے ایک سیکنڈ کوبھی خوف محسوس نہیں ہوا کیوں کہ میڈیکل ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ یہ جو کہے وہ کرنا اور یہ اِس درد کا صحیح اور یقینی علاج ہے ۔ آخری چیز جو مجھے یاد ہے وہ یہ ، کہ، جامنی رنگ کے اُس اُبلتے ہوئے محلول کی سطح بالکل میرے کھلے مونہہ اور ناک کے برابر آ گئی تھی۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں کچے فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ مجھے بیدار دیکھتے ہی ایک مٹی کے پیالے میں زرد رنگ کا ایک محلول پینے کو دیا گیا جِس کا ایک گھونٹ پینا بھی محال تھا۔ اُوم لینو نے پورا پینے پر اصرار کیا ۔چند گھونٹ ہی دِل پر جبر کر کے حلق سے نیچے اُتارے ہوں گے کہ متلی محسوس ہونے لگی۔وہاں سے اِس پیالے کو ختم کرنے کا پھر کہا گیا۔اوّل تو نہ میں سُقراط تھا کہ یہ زہر کا پیالہ زہر مار کرنا لازم ٹہرے اور دوسرے مجھے پہلے ہی بتلا دیا گیا تھا کہ یہ جادوگر ڈاکٹر جو کہے وہ کرنا، کیوں کہ وہ عین علاج ہے۔لہٰذا بچوں کی طرح ناک پکڑ کر ایک ہی سانس میں پینے کی کوشش کی۔سارا تو نہ پی سکا البتہ اُبکائی لے کر جو کچھ بھی پیا تھا وہ سب پہلے سے کھائے پےئے کے ساتھ باہر آ گیا۔اِس کے ساتھ ہی حیرتناک طور پر میرا آدھے جِسم کا درد رُخصت ہو گیا۔ وہ دِن اور آج کا دِن، مجھے پھر کبھی یہ شکایت نہیں ہوئی ۔
راقِم کا علاج یقیناََ خالص جڑی بوٹیوں سے کیا گیا تھا، اور اللہ کے کرم سے میں بالکل ٹھیک بھی ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس اُوم لینو کوحکیم یا ڈاکٹر کے بجائے جادوگر ڈاکٹر کہنے کہ کیا تُک ہے؟ یہ جادو ہر گِز نہیں کرتے بلکہ ر دِّ جادو یا جادو کے بد اثرات ختم کرتے تھے۔انسان اور مویشیوں کی صحت و بیماری کے علاوہ اِن کی اہمیت کئی اورمعاملات میں بھی مُسلّمہ تھی۔شگون کا لینا ہو تو اِسی کے پاس جاتے،چوری چکاری کا جُرم ہو جائے تو اِس کے پاس جایا جاتا،دیوتا ناراض ہیں تو اِس کے پاس جا ئیے۔ کیوں کہ اکثر بستیوں میں
اُن کے اعتقادات کے حِساب سے دیوتاؤں کے مجسمے اِسی کے ہاں ہُوا کرتے تھے ۔یہ اوم لینو ایک مثبت کردار ہے جو قطعاََ بُرا نہیں۔یہی طبیب، یہی ڈاکٹر یہی مذہبی پیشوا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کہانیوں میں اور فِلموں میں اِن میڈیسن مینوں کو بہت غلط انداز میں ہیش کیا جاتا رہاہے؛ جبکہ یہ اُوم لینو یا جادو کے توڑ کرنے والے طبیب،اِن کی ثقافت کا بہت اہم حصّہ ہیں۔
بڑے مگر مچھ کے پیٹ سے آدمی کا زندہ نکلنا:
اِس بظاہر چھوٹے سے مُلک رُوانڈا میں کئی ایک جھیلیں ہیں جِن میں سب سے مشہور اور بڑی جھیل ’ کی وُو ‘ Lake Kivu تھی۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیاکہ راقِم نیشنل جیوگرافِک فِلم سوسائٹی کے ایک یونٹ کے ساتھ مُنسلک تھا جسے اِس جھیل میں کام کرنے کے لئے جانا تھا۔یہ اُس وقت بھی دُنیا کی چند گہری ترین جھیلوں کی فہرست میں شامِل تھی۔ اِس فِلم کا مرکزی خیال مگرمچھوں کے انڈوں سے بچے نکلنا اور پھر وہاں سے آگے کے تمام مراحِل تھے۔
قُدرتی طور پر جھیل کے بعض کناروں کی بناوٹ کچھ اِس طرح تھی کہ وہ عام انسانوں ا ور جانوروں کی گزر گاہ نہیں تھی۔ایسی جگہیں مادہ مگر مچھ کے انڈے د ینے،اور پھر اُن کی حفاظت کی خاطر مسلسل نظر رکھنے کے لئے بہترین ہو تی ہیں۔ایسے ہی ایک کنارے پر جہاں مگر مچھ کے انڈے کثیر تعداد میں موجود تھے، ہم نے مناسب جگہ پر کیمپ لگا دیا۔
اِس مقام سے ایک دو میل اوپر کی جانب ایک چھوٹی سی آبادی تھی جہاں دِن میں ایک آدھ مرتبہ ہم میں سے کِسی نہ کِسی کا چکر لگتا ہی رہتا تھا۔ایک روز دِن چڑھے بستی کی طرف سے شور و غُل کی آوازیں آنے لگیں اور کبھی کبھی پیغام رسانی کے ڈھول بھی سُنائی دینے لگے۔اُدہر یقیناََ کوئی غیر معمولی بات ہوئی تھی۔ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے یونٹ کے کیمرہ مین کا نعرہ بلند ہوا CUT AWAYS ’ کٹ اویز ‘ ۔ یہ ایک اِصطلاح ہے جِس کے معنی ہیں تھوڑی دیر کو اصل کی جانب سے توجہ ہٹانا۔مثلاََ ہم مگر مچھوں کی فلم بندی کر رہے تھے اب اگر کوئی اور چیز،جِس کا مگر مچھوں کے انڈوں بچوں سے تعلق نہ بھی ہو مگر ہو دلچسپ،تو تھوڑی دیر کو اسکرین پر آنے سے دیکھنے والوں کو وہ بھلی لگے گی۔
روزانہ کے معمولات میں جب بھی یہ آواز آتی، تمام یونٹ کے لئے تفریح کا اِشارہ سمجھا جاتا ۔ذہنوں پر کام کا دباؤ بھی کم ہو جایا کرتا تھا۔تقریباََ تمام یونٹ ہی تیزی سے اُس جانب کو بڑھا جِس جانب وہ بستی تھی۔
وہاں ایک عجیب ہی نظّارہ تھا۔کچھ مقامی لوگ جھیل میں کمر کمر پانی میں کھڑے بُلند آوازوں میں شور مچا رہے تھے۔اِن سےکچھ فاصلے پر ڈھول بجانے والے گاہے بگاہے زور دار ضربیں لگا رہے تھے۔بغیر کچھ معلوم کیے کہ ماجرا کیا ہے،کیمرہ مین اور راقِم نے اُس عوامی جوش و خروش اور ’ موجودگی ‘ کی آوازیں،جیسے جھیل کے پانی کی ہلکی آواز،اور دور نزدیک سے مقامی زبان میں اُس کیفیت اور شور پر تبصر وں کو عکس اور صدابند کرنا شروع کر دیا۔
جلد ہی اِس افرا تفری کے پس منظر کا علم ہو گیا ۔ خاصا بڑا مگر مچھ ، جھیل میں نہاتے ہو ئے ایک فرد کو اُٹھا لے گیا تھا۔
’’ اُس کو تو مگر مچھ لے گیا، اب یہ ہنگامہ کیسا ؟ ‘‘۔میں نے ’سواحیلی‘ زبان سے کام چلاتے ہوئے سوال کیا۔
اِس کا جو جواب آیا وہ نہایت حیرت انگیز تھا۔’’ اِس واقعہ کو اب تقریباََ 40 مِنٹ ہونے والے ہیں اور کِسی بھی وقت ہمارا آدمی اُس مگر مچھ کے پیٹ کو کاٹ کر باہر آنے والا ہے‘‘۔
’’ ارے وہ کیسے؟ ‘‘۔
’’ ہم نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ جب کوئی مگر مچھ کِسی شخص کو نِگل لے، تو 40یا 45 منٹ کے بعد مگر مچھ پانی کی تہہ سے اُٹھ کر پانی کی سطح پر آ جاتا ہے۔اگر اُس آدمی کے پاس ’ درانتی ‘ موجود ہو تو آسانی سے مگر مچھ کے نرم پیٹ کو کاٹ کر نِکلا جا سکتا ہے ۔ابھی آپ کے سامنے یہی ہونے والا ہے۔‘‘۔بستی والے نے کہا۔
’’ یہ شور و غُل کیسا ہے؟ ‘‘۔میں نے سوال کیا۔
’’ جانور کا پیٹ کاٹا جائے تو اُسے شدید تکلیف ہوتی ہے،مگر مچھ کا زبردست ہتھیار تو خود اُس کی دُم ہوتی ہے۔اُس تکلیف کے عالم میں وہ زور دار طریقے سے اپنی دُم پانی میں مارتا ہے۔اگر اِس کی زد میں پیٹ کاٹ کر نکلنے والا آ جائے تو اُس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں۔مگر مچھ کی توجہ بٹانے کے لئے یہ شور و غُل اور ڈھول بجائے جا رہے ہیں‘‘۔ اُس شخص نے خاصا مدلل جواب دیا۔
اچانک جھیل کے پانیوں میں زبردست ہلچل مچ گئی۔کیمرہ مین پہلے ہی سے تیّار تھا۔میں نے اپنا ’ ناگرا 4 ‘ اسپول ٹیپ ریکارڈر او ر مائک صدابندی کی حالت میں رکھا ہوا تھا۔ صرف ناگرا اِسپول ٹیپ ریکارڈرہی اُن دِنوں فِلم کیمرہ ( ویڈیو نہیں) کی رفتار، یعنی 24 فریم فی سیکنڈ پر پورا اُترتا تھا۔
ہم دونوں ہی اُس ہلچل والی جگہ پہنچ گئے۔میری تمام تر توجہ آواز کی صدابندی کے لیول پر مرکوز تھی۔کانوں پر لگے ہیڈ فون پرپانی میں شڑاپ شڑاپ کی آوازیں آ رہی تھیں ۔گاہے بگاہے پانی میں جاری،نظر نہ آنے والی کشمکش پر بھی ایک نظر ڈال لیتا تھا۔اچانک جھیل میں ہلچل تیز ہوئی ؛ اُس مقام پر گویا زلزلہ آ گیا اور وہاں کے پانی کا رنگ بھی لال ہو گیا۔ شڑاپ کی آواز کے ساتھ ایک شخص مگر مچھ کی تیزی سے کوڑے برساتی دُم سے بچتے بچاتے اُلٹا تیرتا ہوا سطح آب پر اُبھرا۔اب سطح پر مگر مچھ اور اُس کی پانی کو مارتی ہوئی دُم واضح نظر آنے لگی۔ اُدھر عوام کی چیخ و پُکار اور ڈھولوں کی آوازیں آسمان کو چھونے لگی۔اِسی دوران کئی ایک افراد ایک موٹا رسّہ لے آئے اور تین اطراف سے تڑپتے ہو ئے مگر مچھ کی جانب بے خوفی سے بڑھے۔ اُس شخص کی ہمّت کی داد دینا چاہیے کہ وہ کچھ دور تیرتا ہوا آیا، پھر کئی ایک لوگ اُس کو سہارا دے کر کِنارے پر لے آئے۔اِدھر اِس آدمی کو زمین پر لٹایا اُدھر کچھ لوگوں نے کمال پُھرتی سے مگر مچھ کے مونہہ کو رسّہ سے باندھ دیا۔مجھے اچھی طرح آج بھی یاد ہے کہ کئی افراد رسّہ کو کھینچتے جاتے تھے اور یہ نعرہ لگاتے جاتے تھے ’ ہارآم بے ‘ ........ ہار آم بے، غالباً سواحیلی زُبان میں گوریلے کو کہا جاتا ہے۔گویا گوریلا اُن کے نزدیک طاقت کی علامت ہے۔
اُس وقت کیمرہ مین اور میرا کام بہت بڑھ گیا ۔ایک طرف مگر مچھ کی پانی میں اُچھل کود اور دوسری طرف اُس کے پیٹ سے نکلنے والے شخص کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیت، دونوں کے ساتھ ا نصاف کرنا۔کچھ دیر یہ زور آزمائی جاری رہی پھر وہ لوگ مگر مچھ کو گھسیٹ کر کِنارے پر لے آئے۔وہ ایک بہت بڑا مگر مچھ تھا اور اتنی شِدّت سے دُم مار رہا تھا کہ ا للہ کی پناہ! دوسری طرف وہ شخص اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔اُس کے جِسم پر معمولی خراشیں تھیں،ہاتھ پاؤں بالکل سلامت نظر آئے۔ مقامی زبان میں وہاں موجود افراد اُس سے سوال جواب کرنے لگے۔ کچھ سواحیلی اور کچھ اِشاروں سے جو کہانی بنی وہ یہ تھی:
’’ میں جھیل میں نہانے دھونے کے لئے اُترا ہی تھا کہ نزدیک ہی کہیں سے ایک مگر مچھ،اپنا بڑا سا مونہہ کھولے مجھے نگلنے کے لئے قریب آ یا۔میں نے کوشش کی کہ اُس مقام سے واپس آ جاؤں مگر پانی میں مگر مچھ کی پھرتی کے آگےمیرا کوئی بس نہیں چلا۔وہ میرےسر کی جانب آیا اور اپنا پورا مونہہ کھو ل کر مجھے نگلنے لگا۔اُس وقت اُس موذی سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا تھا لہٰذا میں نے بھی وہی کیا جو یہاں کا دستور ہے اور جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں‘‘۔
’’ وہ کیا؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ ہمارے ہاں مگر مچھ کبھی کبھار مویشیوں اور اِنسانوں کو بھی لے جاتا ہے۔مویشی اکثر لڑ بھڑ کر صحیح سلامت آ جاتے ہیں اور انسانوں کے پاس اگر یہ ہتھیار ہو تو اُس کے زندہ بچ آنے کے روشن اِمکانات ہوتے ہیں‘ ‘، یہاں بات کوروک کر اُس شخص نے ایک درانتی دکھلاتے ہوئے بات کو جاری رکھا ۔’’ جب مگر مچھ آپ کے سر پر مونہہ کھولے آ جائے تو آپ نے جدوجہد نہیں کرنی۔ اگر وہ آپ کو نگلنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو آپ بھی ’ رضامندی ‘ دکھائیں۔اُس وقت اگر آپ پُر سکون ر ہے تو وہ اپنے دانتوں کا استعمال نہیں کرے گا اور سالم ہی نگلنے کی کوشش کرے گا۔ وہ نگلتے ہی نیچے غوطہ لگا کر چلا جاتا ہے۔اگر اُس وقت اُس کا پیٹ کاٹ بھی لیا جائے تو نیچے گہرائی میں آپ کا بس نہیں چل سکتا۔تقریباََ 40 منٹ بعد وہ دوبارہ پانی کی سطح پر آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اُس کا نظامِِ ہاضمہ کام شروع کرتا ہے ۔جب جِسم پر تیزاب کی پچکاریاں چلتی محسوس ہوں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ پانی کی سطح پر ہے اور اب ہم نے اپنا کام کرنا ہے۔ کم و پیش 40 منٹ تک اِنسان اُس جانور کے پیٹ میں بغیر دِقّت کے آرام سے سانس لیتاہے۔اب جیسے ہی تیزابی چھینٹے محسوس ہوں،ہمیں پتا لگ جاتا ہے کہ اب نِکلنے کا وقت آ گیا۔اِس درانتی سے ہم تیزی کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں اُس کا پیٹ کاٹتے ہیں اور باہر نِکل آتے ہیں‘‘۔
جب میں نے اُس شخص سے پوچھا کہ کیا یہ زخم مگر مچھ کے دانتوں کے ہیں ؟ تو اُس نے حیرت انگیز جواب د یا کہ یہ مگر مچھ کے پیٹ کے تیزاب سے آئے ہیں، جِس سے اُس کی کھال مُتاثر ہوئی۔
راقِم اور تمام یونٹ والوں نے اِس واقعے کے اختتام پر اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا ہی تھا کہ ایک اور حیرت ناک منظر نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کر دی ۔
ََ کچھ لوگ بُغدے ( جیسے ہمارے ہاں قصاب استعمال کرتے ہیں ) لے کر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پہلے مگر مچھ کی دُم کاٹ کر الگ کی، جو چھِپکلی کی دُم کی طرح سے کچھ دیر ہلتی رہی۔پھر اُس کے ہا تھ پاؤں الگ کیے اور مچھلی کی طرح سے پورے ہی جانور کے ٹکڑے کر دیئے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ یہ لوگ ایک زندہ مگر مچھ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُسے پکانے لگے تھے اور کبھی یہی مگر مچھ اِن کی بَستی کے کِسی اِنسان کو کھانے کے لئے لے جاتا تھا۔شاید اِسی کو برابر کی چوٹ کہتے ہیں۔
دوسری طرف جب مادہ مگر مچھ کے انڈوں میں سے بچے نِکلنے کا وقت آیا تو وہ بھی ایک عجیب ہی نظارہ تھا۔ننھے منے بچے اپنی جِبِلّت پر انڈوں سے نکلے اور پانی کی طرف تیزی سے چلے گئے اور وہیں بقائے اصلاح survival of the fittest کا عملی مشاہدہ بھی کیا۔پانی تک کامیابی سے پہنچنے والی تعداد خاصی کم تھی۔اکثریت کو پرندے اُچک لے گئے۔اب جوباقی بچ کر پانی تک پہنچے اُن میں سے بھی کچھ مچھلیوں کی خوراک بنے۔اگر تمام کے تمام بچے ہی مگر مچھ بن جاتے تو؟؟؟
جادوگر ڈاکٹر کے پاس چور کی حاضری :
وسطی اور مشرقی افریقہ کی دور اُفتادہ بستیوں میں وہاں کے مقامی طبیب جِس کو عرفِ عام میں جادوگر ڈاکٹر کہا جاتا ہے،اُن کی اہمیت کا ذکر پہلے آ چکا ۔ایک مرتبہ صبح صبح جھیل کی قریبی بستی میں خوب چہل پہل اور رونق دیکھی۔پوچھنے پر علم ہوا کہ اندرونِ جنگل، بستی کے ’ اوم لینو ‘ کے ہاں ضروری فیصلے ہو رہے ہیں جِس کی دعوتِ عام ہے۔مجھے خود ایسے طبیب کا کامیاب تجربہ تھا لہٰذا سوچا کہ کیوں نہ ہم سب بھی وہاں چلیں۔مجھے یقین تھا کہ کوئی اور چلے نہ چلے کیمرہ مین ضرور چلے گا۔ لیکن تقریباََ سارا ہی یونٹ چل پڑا ۔
دِن کے دو بجے کے لگ بھگ ہم جھیل بستی کے بہت سے لوگوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ایک میدان میں کاروائی جاری تھی۔عوام نہایت تنظیم کے ساتھ ایک نیم دائرے کی صورت بیٹھے تھے۔ چبوترے پر ایک پُر وقار،سنجیدہ اور اُدھیڑ عُمر شخص بیٹھا تھا۔اِس کے قدموں میں سانپ،گیدڑ،مگر مچھ بیٹھے اور چلتے پھرتے نظر آئے۔
’’ ہبار ی گانی ‘‘۔ہم سب نے بلند آواز سے کہا جِس کا مطلب ہے ’ کیا حال ہے؟ ‘
جواب مِلا ’’ مو زوری ثانا ‘‘۔ یعنی ’ میں بہت اچھا ہوں ‘۔
اور ’’ کری بو بانا ‘‘۔یعنی خوش آمدید جناب!۔یہ کہتے ہوئے اُس نے تمام آنے والوں کو بیٹھنے کے لئے کہا۔بیٹھنے کے بعد یونٹ کے ذمہّ دار نے اِس کاروائی کو فِلم بند کرنے کی اجازت لے لی۔وہاں پہلے ہی چند بیمار افراد علاج کے لئے آئے ہوئے تھے ۔
عوام کی بھلا اِس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہو سکتی ہے۔ یہ یقیناََ ایک بہت بڑا کام ہے جِس کا اکثر اوقات ہمارے ہاں تمسخر کیا جاتا ہے۔بعض افراد اپنے گُم شدہ جانوروں کی بابت پوچھنے لگے۔دفعتاََ ایک مقامی شخص روتا پیٹتا آ کر ’ طبیب ‘ کے پیروں میں بیٹھ گیا۔معلوم ہوا کہ اُسی بستی میں چوری کی واردات ہوئی تھی،جو یہاں کے ’ اوم لینو ‘ کو فوراََ رِپورٹ کر دی گئی تھی۔موقع پر کھوجی بھی بھیجے گئے تھے۔آج ایک شخص خود چل کر حاضری لگانے آیا۔جو تسلیم کر رہا تھا کہ اُسی نے وہ چوری کی تھی،کئی روز سے وہ سو نہیں سکا،ایک پَل چین نہیں، پورے جِسم پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لال چیونٹیاں ( آتشی چیونٹیاں) رینگ رہی ہوں۔جو جُملے وہ گڑ گڑا کر اوم لینو سے کہہ رہا تھا اُس کے معنی تھے کہ اب اُسے معاف کر دیا جائے۔آیندہ کبھی وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔اُس کے بد اثرات ختم کر دیئے جائیں۔
لگتا تھا کہ اِس معاملے میں وہاں موجود افراد سے رائے پوچھی جا رہی تھی کہ اب اِس کا کیا کریں۔تمام پہلووں پر بات کرنے کے بعد، مُتاثرہ شخص ( جِس کی چوری کی گئی تھی) کی رضا معلوم کی گئی۔اور ایک رنگین محلول مُلزم / مُجرم پر اُنڈیلا گیا۔جِس نے بہت ہی جلد اپنا اثر بھی دِکھایا۔وہ شخص جو پہلے اپنے جَسم کو کھجلا کھجلا کر پاگل ہوا جا رہا تھا، اب پُر سکون ہو گیا۔ اِس معاملے کو جب کریدنے کی خاطر سوال کیا گیا تو ’ طبیب ‘ نے کہا کہ جب کھوجی نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے مطلوبہ شخص تک پہنچ جاتے ہیں تو اُسے مُلزم تصور کر کے ہم عمل کرتے ہیں اور اگر وہ واقعی مجرم ہوتا ہے تو چند گھنٹوں کے اندر وہ اپنے جِسم پر چیونٹیاں رینگنے کا رونا روتا ہوا آجاتا ہے۔
جب پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ تو کہنے لگا کہ یہ چیز اُس کے خاندان میں باپ دادا سے چلی آ رہی ہے اِس کا سمجھانا ممکن نہیں۔لیکن اُس کا دعویٰ تھا کہ کبھی بے قصور ایسی حالت میں نہیں آتا۔اِس عمل کو وہ ’ حاضری ‘ کہتے ہیں۔ اِس قصّہ کے مناظر ’ کٹ اویز ‘ کے طور پر مگر مچھ والی فِلم میں لگے بھی تھے۔
پاکستانی ہائی کمیشن نیروبی کا ایک عبرت آموز واقعہ:
مگر مچھ کے پراجیکٹ کے بعد تین ماہ کا وقفہ تھا۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا کہ وسطی افریقہ میں راقِم نے ’ رام جی ‘ گروپ کی سگریٹ ایجنسی میں بھی کام کیا۔وہیں ( ہندوستان کے ) گجرات کے ایک عُثمان بھائی سے مُلاقات ہوئی جو ’ بورونڈی ‘ کے دارالحکومت ’ بو جو مبو را ‘ میں ایک سینما کے مالک تھے۔ وہ اپنے سینما میں بھارتی فلمیں لگایا کرتے تھے اور مزے کی بات یہ کہ مقامی لوگ بہت شوق سے یہ فِلمیں دیکھنے آتے تھے۔میں نے اُن سے اُن کے سینیما کے پروجیکٹر میں فلمیں چلانا سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، جِس کی اُنہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ مجھے تو جنون کی حد تک اِس کام کا شوق تھا،خاکسار نے اِس کام میں نہ دِن دیکھا نہ رات لہٰذا جلد ہی اِس کام میں مطلوبہ مہارت حاصل کر لی۔عثمان بھائی نے خوش ہو کر پیش کش کی کہ اب راقِم نیروبی کے فِلم تقسیم کاروں سے نئی فِلمیں لایا کرے ۔ پھرتو میر ی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں تھا۔
پہلی فِلم جو میں نیروبی سے لایا وہ ’ زنجیر‘ تھی ۔پھر ’ مُقدّر کا سِکندر ‘ ۔ میرا تیسر ا پھیر ا یادگار تھا۔اب کی دفعہ فلم تقسیم کار کے دفتر میں امیتابھ بچن اپنی فلم ’ نٹور لال ‘ لے کر خود وہاں موجود تھے۔نہایت اِنکساری سے مِلے۔واضح رہے کہ جِس ہفتہ وہ فلم بمبئی میں نمائش کے لئے پیش ہوئی اُسی ہفتہ نیروبی کے تقسیم کار کے دفتر میں بھی موجود تھی۔مزید علم ہوا کہ بمبئی کی فلموں میں افریقہ کے تقسیم کاروں کا پیسہ بھی روپئے میں چار آنے لگا ہوتا ہے۔بہر حال سولہ یا سترہ سو فٹ کی یہ فلم ( غالباََ ) 17 ریلوں کی تھی۔ اِس فلم
نے کافی بزنس کیا ۔
’’ عثمان بھائی! کیوں نہ کسی پاکستانی فِلم کو نمائش کے لئے پیش کیا جائے؟‘‘۔میں نے عرصے سے دبی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’ شوق سے ! مگر لاؤ گے کہاں سے؟ میری معلومات کے مطابق نیروبی میں ایک بھی تقسیم کار ادارہ پاکستانی فلموں کا کام نہیں کرتا۔ تم پاکستانی ہائی کمیشن نیروبی جا کر معلوم کرو‘‘۔
نیروبی کے پاکستانی ہائی کمیشن کا راقِم کو بے حد تلخ تجربہ پہلے ہی حاصل تھا لہٰذا نیروبی کے اگلے پھیرے میں سب سے پہلے میں پاکستانی ہائی کمیشن گیا۔وہاں کے ایک ذمّہ دار افسر تک رسائی ہوئی۔رسمی دعا سلام کے بعد آمد کا مقصد بتایا۔حضرت موصوف سے گفتگو کے چند جملے لکھنے اپنا فرض سمجھتا ہوں تا کہ وزارتِ خارجہ کچھ تو ہوش کے ناخن لے !!!!
’’ جناب میں پاکستانی فلموں کی وسطی افریقہ میں نمائش کرنا چاہتا ہوں ۔ نیروبی کے تمام تقسیم کار بھارتی فِلمیں تقسیم کرتے ہیں۔ مجھے اِس سلسلہ میں معلومات درکار ہیں کہ یہ فلمیں مجھے کہاں سے ملیں گی؟‘‘۔
جواب ملا ’’ یہاں بھانڈ مراثیوں کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔یہ ہائی کمیشن ہے کوئی چنڈوخانہ نہیں‘‘۔ اِس کے بعد جو کچھ کہا گیا وہ لکھا نہیں جا سکتا۔
کام رُکا نہیں کرتے۔ڈھونڈ ڈھانڈ کے گولڈن جوبلی پاکستانی اُردو رنگین فلم ’ بہارو پھول برساؤ ‘ ہاتھ لگی جو 1972 میں پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔اِس کے فِلم ساز اور ہدایت کار ایم صادق صاحب تھے، اِنہوں نے ہی فِلم کا منظر نامہ لکھا۔ آدھی فلم ہی بنی تھی کہ وہ انتقال کر گئے باقی فِلم جناب حسن طارق صاحب نے مکمل کی۔موسیقار ناشاد،گیت نگار شیون رِضوی تھے ۔ اداکاروں میں وحید مراد،رانی،منور ظریف ،سنگیتا،اسلم پرویز، کمال ایرانی ،الیاس کاشمیری اور تمنا تھے۔
مجھے جو پرنٹ مِلا وہ بہت مخدوش حالت میں تھا۔ پرنٹ میں لگے ’ جوڑ ‘ بہت کمزور تھے،کئی گھنٹے تو اُس کی درستگی میں لگ گئے۔اللہ نے بڑاکرم کیا۔مقامی آبادی مار دھاڑ،ایکشن والی بھارتی فِلمیں دیکھنے کی عادی تھی،اب یہ اُن کے لئے نئی چیز تھی۔خلافِ توقع یہ بے حد پسند کی گئی اور بزنس کے حساب سے ’ نٹور لال ‘ سے کم نہیں رہی۔
مگر پاکستانی فلم کے بارے میں راقِم نے پھر اِس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا دیئے ۔
پراسرار مینار :
ایک مرتبہ سینما والے عثمان بھائی سے میں نے پوچھا کہ کیا یہاںآس پاس کوئی تاریخی کھنڈرات یا مقامات ہیں؟تو اُنہوں نے اپنے بڑے بیٹے غلام محمد سے کہا کہ وہ مجھے ’ مصری ٹاور ‘ لے جائیں۔مجھے اِس ٹاور کی تفصیلات جاننے کا شوق پیدا ہوا تو میں نے اِس کے بارے میں اُن سے پوچھا۔
’’ 1960-61 میں بوجومبورا کے مضافات میں جنگل کے کنارے ایک بیلجین نے قدیم مصری طرزِ تعمیر پر ایک مکان تیار کروایا ۔اِس کی ایک جانب ایک ٹاور تھا اُس میں مختلف زاویوں سے ایسی جھِریاں رکھی گئی تھیں جِن سے ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں تک اندرآتی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ اُس شخص کو پاگل پن کی حد تک قدیم مصری تہذیب اور مصریات سے لگاؤ تھا۔کئی دفعہ مصر بھی جا چکا تھا۔ایک مرتبہ تو چھ ماہ رہ آیا ۔تب واپس آ کر اُس نے ایک چھوٹی سی لکڑی کی کشتی تیار کروائی ‘‘۔
’’ حیرت ہے! ‘‘۔ میں نے کہا۔
’’ اُس کی مصریات میں دلچسپی جب حد سے گزر گئی تو اُس کی بیوی بچے اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔اب وہ اپنے چند نوکروں کے ساتھ وہاں رہتا تھا۔ اُس نے نہ جانے کہاں کہاں سے قدیم مصر سے متعلق کتابیں جمع کر کے اپنی لائبریری بنا لی تھی۔کھانا پینا بھی لائبریری میں ہوتا۔عصر سے مغرب تک کا وقت ٹاور میں گزارتا اور اِس دوران وہ مُسلسل سورج کو تکتا رہتا۔ کئی مرتبہ اُس کے وفا دار ملازمین نے اُس کو ٹاور پر اِس حا ل میں دیکھا گویا وہ اوپر سے چھلانگ لگانے والا ہو۔ ہر مرتبہ وہ اُس کو پھرتی سے بچا لاتے.مگر ایک روز اُس نے وہاں سے چھلانگ لگا کر زندگی ختم کر ڈالی۔اُس کی وصیت کے مطابق،پہلے سے زیرِ زمین تیار شدہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اُس کو تابوت میں بند کر کے لکڑی کی کشتی میں رکھ کر باہر قفل لگا دیا گیا۔ اُس کی موت پر اُس کے بیوی بچوں کو اطلاع کی گئی مگر اُنہوں نے صرف اُس کی نقد رقم سے دلچسپی دکھائی۔کوئی بھی قیمتی کتابوں، مکان کی ملکیت کے لئے آگے نہیں آیا اور نہ ہی تابوت کو لکڑی کی کشتی میں رکھنے کی آخری رسومات میں شریک ہوا‘‘۔
’’ اوہ !! ‘‘۔میں نے بے ساختہ کہا۔
’’ اِس کے بعد یہ مکان غیر آباد ہو گیا۔مقامی لوگ تو پہلے ہی توہم پرست ہیں ، وہ تو وہاں بھٹکتے بھی نہیں تھے ۔رفتہ رفتہ مکان دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا اور جنگلی جانوروں کا مسکن بنتا گیا۔نہ جانے اِس کی مشہوری کیوں اور کیسے ہوئی کہ کچھ غیر ملکی اِس کوڈھونڈتے ہوئے آئے اور یہاں کیمپ لگایا۔اگلی شام اِن میں سے ایک خود کشی کر چکا تھا۔پولیس میں لکھت پڑھت ہوئی۔رات گئی بات گئی۔کچھ عرصہ بعد ایسی ہی ایک دو اور خود کشیاں ہوئیں۔اِس کے بعد حکومت نے دخل اندازی کی ۔ اب سرکار نے تین چار زبانوں میں واضح نوٹس لگا رکھا ہے کہ خبردار! اِس ٹاور پر چڑھنا منع ہے۔اور اپنی دانست میں خاردار تار لگا کر رکاوٹ کی گئی ہے مگر بھلا موت کِس سے رُکی؟‘‘۔
’’ کیا اب بھی لوگ وہاں جاتے ہیں؟ ‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ ہاں! اِس کے باوجود ایک دو اموات بھی سُننے میں آئی ہیں۔اِس لئے حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ تم وہاں اکیلے نہ جاؤ ، میر ے دونوں بیٹے تم کو وہاں لے جائیں گے‘‘۔عثمان بھائی نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ یہاں بس یہی ایک تاریخی نشانی ہے‘‘۔
اگلے روز ہم تینوں اُس مقام پر پہبچ گئے۔اِس جاگیر کا چونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لہٰذا عمارت کی دیکھ بھال نہ ہونے کہ وجہ سے درواز ے کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ہر طرف جھاڑ جھنکار۔عبرت انگیز منظر تھا۔ میرے ساتھ غلام محمد مکان میں داخل ہوا۔جا بجا فرش پر جانوروں کا فضلہ بکھر ا تھا۔ظاہر ہے جب رات تو رات، دِن میں یہاں کوئی نہیں آتا تو قریبی جنگل کے جانور یہاں آتے جاتے تھے۔نیچے کی منزل کا تو کچھ کہنا بیکار ہے البتہ اوپر کا حصّہ قدرے بہتر تھا۔یہیں اُس شخص کی لائبریری دیکھی۔17 سال پہلے یہ مکان تعمیر ہوا،اُس کے دو سال بعد لائبریری بنائی گئی۔ پھر 1964 کے اوائل میں اُس شخص کی خودکشی کے بعد سے یہ لائبریری ویران پڑی تھی۔سال خوردہ مٹی سے اٹی ہوئی مُجلّد کتابیں اب بھی شیلفوں میں رکھی ہوئی تھیں۔دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ یقیناََ قیمتی ہوں گی۔
اِسی دوران نیچے سے عثمان بھائی کے چھوٹے بیٹے تبسم نے بلایا۔ اُس نے زیرِ زمین کمرے میں جانے کا راستہ دیکھ لیا تھا۔ درواز ہ اپنے قبضوں پر جھول رہا تھا۔اندر کی فضا کثیف تھی۔ہم لوگوں نے ربڑ کے جوتے پہن رکھے تھے لہٰذا حشرات کا خوف نہیں تھا۔نیم تاریکی میں پہلو کے بل جھکی ہوئی لکڑی کی کشتی میں شاید کسی قیمتی لکڑی کا بنا ہوا تابوت رکھا ہوا تھا۔تابوت کا ڈھکنا ڈھیلا تھا۔ہم نے جھانک کر دیکھا، اِس کے پندرہ سال پرانے مکین کی حالت اچھی نہیں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ تابوت کو مقامی لوگوں نے نہیں چھیڑا ہو گا۔نہ ہی کسی جانور کو تابوت سے دلچسپی ہو سکتی ہے ۔
’’ اتنا کچھ سُنا اور اب دیکھ بھی رہے ہیں اب میرا بھی دِل چاہتا ہے کہ اُس ٹاور پر چڑھ کر معلوم کروں کہ ٹاور پر ڈوبتے سورج کی کرنوں میں ایسی کیا تاثیر ہے کہ کئی افراد اِس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہاں سے کود گئے؟ ‘‘۔میں نے سوال کیا۔
’’ ہاں !۔خیال تو اچھا ہے۔چلو چلتے ہیں‘‘۔تبسم نے فوراََ جواب دیا۔
’’ نہیں اِس فضولیات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔غلام محمد نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’ دیکھیں ہم تین افراد ہیں ایک دوسرے کو باندھ لیتے ہیں، جیسے پہاڑوں کو سر کرنے والے کرتے ہیں اور اِس طرح ہم محفو ظ رہیں گے‘‘۔ تبسم نے رائے دی ۔اور تھو ڑے سے بحث مباحثے کے بعد ٹاور پر جانا طے پا گیا۔تبسم بھاگ کر گاڑی میں سے ایک موٹا رسّہ نکال لایا۔
ہم تینوں ٹاور کی جانب گئے۔وہ کوئی قطب مینار یا مینارِ پاکستان جتنا بلند تو تھا نہیں شاید کراچی کے فلیٹوں کے حساب سے 6 منزلوں تک بلند ہو گا۔ ہم تینوں نے رسہ سے ایک دوسرے کو باندھا،سب سے پہلے میں پھر تبسم اور آخر میں غلام محمد تھا۔ آدھا راستہ طے کرنے کے بعد ہمیں تین زبانوں میں دھات پر چھپے نو ٹِس نظر آئے ’ اِس جگہ سے آگے جانا منع ہے ‘ ۔ اورساتھ ہی خاردار تاریں بھی نظر آئیں جِن سے کبھی سیڑھیوں کو بند کیا گیا ہو گا مگر ہمارے پیش رو لوگوں نے اِس میں سے راستہ نکال لیا تھا۔
اب بھی یاد کرتا ہوں تو خوف آتا ہے کہ اللہ جانے کیا بھید تھا کہ اِس مقام سے ایک قدم ہی آگے بڑھایا تو دِل بیٹھنے لگا۔سر بھاری ہو گیا۔ابھی کچھ سیڑھیاں باقی تھیں کہ باقاعدہ چکر آنے لگے اور ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ہلکے ہلکے پیٹ میں گھونسے مار رہا ہو۔ایمان داری کی بات ہے مجھے تو اب ڈر بھی لگنے لگا۔
’’ تبسم! تم کچھ محسوس کر رہے ہو؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ ہاں! چکر آ رہے ہیں۔ ا ب ذ را رُک کر اِن جھِریوں میں سے ڈوبتی کرنیں بھی تو دیکھو؟‘‘۔تبسم نے کہا۔
یقین کیجئے جیسے ہی میں نے اِن جھریوں میں سے باہر جھانکا ایک عجیب ہی منظر میرے سامنے تھا۔ڈوبتے سورج کی کِرنیں درختوں کی شاخوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھیں جِس سے اِس نیم تاریک شاخوں کے لمبے لمبے سائے دائیں بائیں حرکت کر رہے تھے ۔ ایک لمحہ میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ سائے ہیولوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف بُلا رہے ہیں۔میرے پیٹ میں ایک زبردست مروڑ اُٹھا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے تبسم کی آواز سے ہوش آیا ۔ میں سیڑھی پر بیٹھا تھا اور تبسم زور زور سے مجھے بُلا رہا تھا۔
ہوش میں آتے ہی میں نے قدم نیچے کی طرف بڑھائے، دونوں بھا ئیوں نے بھی میری پیروی کی۔کھلی فضا میں آ کر ہم نے سُکھ کا سانس لیا اور اب مجھے خوب اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ لوگ چھلانگ کیوں لگاتے تھے۔
ایک جاپانی سیاح کی دِلچسپ روداد :
فیری میں بو رونڈی کے شہر ’ بو جو مبورا ‘ سے تنزانیہ کے شہر ’ کی گو ما ‘ میں جھیل ٹانگانیکا میں سفر کے دوران ایک جاپانی سیّاح ’ ناکاگاوا ‘ سے مُلاقات ہوئی جو شستہ انگریزی میں بات چیت کر رہا تھا۔یہ 18سال کا نوجوان تھا جِس کو دنیا دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔اُس وقت تو میرا اور اُس کا ساتھ تقریباََ 17گھنٹے رہا تا ہم سال دو سال بعد جب وہ کراچی آیا تب بھی اُس نے مجھ سے رابطہ کیا۔اُس زمانے میں غیر ممالک میں سفر کرنے کے لئے سب سے زیادہ محفوظ ’ امریکن ایکسپریس کے ٹریولر چیک ‘ مانے جاتے تھے۔ ناکاگاوا کی جیب میں ہر وقت وافر تعداد میں یہ موجود ہوتے تھے۔کوئی اِنہیں لے بھی جائے تو لے جانے والے کے کام نہیں آ سکتے تھے۔ دوسری چیز جو غالباََ اُس کے جسم کا ایک حصّہ بن چکی تھی وہ ’ نی کون ‘ کا سنگل لینس رِفلکس کیمرہ تھا۔ اُس نے نَپی تُلی تصویریں اُتاریں ۔ جب فَلم رول بھر گیا تو مجھ سے کہنے لگا کہ کِسی ڈاکخانے میں جا کر نیگیٹیو اپنے والد کے پتے پر جاپان بھیج دوں گا۔
’’ تُم ڈبل روٹی کے سلائس کے ساتھ پھل کھا رہے ہو جب کہ تمہارے پاس پیسوں کی کمی نہیں۔ اِس مُشقّت میں کیوں پڑے ہو۔گھنٹے کا سفر سترہ گھنٹوں میں کر رہے ہو۔کھانا پینا بھی عجیب ہی ہے۔پھر جو تصویریں کھنچتے ہو وہ دھلواتے بھی نہیں؟‘‘۔مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
اُس نے جو جواب دیا وہ واقعی سننے کے لائق تھا۔
’’ ہوائی جہاز کے سفر کو میں سفر نہیں مانتا، نہ ہی پُر تعیش ہوٹلوں میں رہنے اور ٹیکسی میں گھومنے پھرنے کو سیّاحت‘‘۔
’’ اچھا؟‘‘۔میں نے حیرت سے کہا ۔
’’ یہی اصل سفر ہے۔میں دنیا دیکھنے نکلا ہوں۔شوں کر کے ہوائی جہاز میں جانا سفر کیسے ہو سکتا ہے؟ بس، ریل، اور کشتی کا سفر حقیقت میں سفر ہے۔آپ کو اطراف میں لوگ اور جگہیں نظر آتی ہیں۔آپ عوام میں جا سکتے ہیں۔کسی بھی ملک کے بڑے شہر میں پانچ ستارہ ہوٹل میں آپ رہ لئے تو کیا ہوا؟ میں تو لوگوں کے گھروں میں بطور پے انگ گیسٹ ر ہتا ہوں۔کھانے پینے کے لئے زندگی پڑی ہے۔موسمی پھل کےساتھ کبھی چاول اور کبھی روٹی بہترین کھانا ہے ۔جہاں تک تصویروں کا تعلق ہے جاپان میں فلم کی پرنٹنگ بہترین ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری اِس مختصر سی فوٹوگرافی کی کوئی ایک تصویر بھی ضائع نہ ہو ‘‘ ۔
’’ واہ! بہت خوب! اب ذرا یہ بتاؤ تم جاپان میں کرتے کیا تھے؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ وہاں میں طالبِ علم تھا۔کالج تک کی تعلیم مکمل کی ۔مجھے دُنیا دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے اور اِسی لئے میں نے انگریزی بھی سیکھی لہٰذا میں نے اپنا ایک پروگرام مرتب کیا کہ مجھے 5 سال میں دنیا دیکھنی ہے‘‘۔اُس نے جواب دیا۔
’’ اور اِس کے لئے رقم؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ میں نے والَد سے قرض لیا ہے۔پانچ سال بعد بھرپور کام کروں گا اور کوشش کر کے جلد یہ قرض اُتار دوں گا‘‘۔
’’ تمہاری حکمتِ عملی تو بہت زبردست ہے لیکن ذرا یہ تو بتاؤ کہ اِس کو عملی جامہ کیسے پہناؤ گے؟ ‘‘ ۔ میں نے سوال کیا۔
’’ میں جِس ملک میں جاتا ہوں وہاں پہلے جاپانی سفارتخانے جا کر اپنی موجودگی ثابت کراتا ہوں، دِن تاریخ باقاعدہ درج کراتا ہوں۔اِس طرح جب میں سیّاحت مکمل کر کے واپس جاپان پہنچوں گا تو والد صاحب کو بھیجی گئی تصا ویر اور مختلف ممالک میں اپنی موجودگی ثابت کر کے جو کام مجھے فوراََ مِلے گا وہ اسکول ٹیچنگ ہو گی ‘‘۔
’’ ارے اسکول ٹیچر؟‘‘۔حیرت سے میں چکرا گیا۔ ’’ اتنی محنت اور خواری کے بعد اسکول ٹیچنگ؟‘‘۔مجھ سے رہا نہیں گیا۔
’’ جاپان میں اسکول ٹیچر کا میرٹ بہت زیادہ ہے ۔جَس میں تعلیم کے ساتھ تجربہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔پھر معاشرہ میں بہت عزت ہے تنخواہ بھی پُر کشش ہوتی ہے‘‘۔
’’ کیا واقعی؟‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ میں ٹیچر بن کر ایک سال میں اپنے والِد کا قرض اُتار سکتا ہوں۔اِس کے ساتھ ساتھ اپنی مہمات پر با تصویر کتاب شائع کروانے سے الگ رقم ملے گی‘‘۔ناکاگاوا نے جواب دیا۔
سفر کے اختتام پر اُس نے مجھ سے میرے گھر کا پتا اور فون نمبر لیا اور وعدہ کیا کہ پاکستان کی سیاحت کے دوران وہ مجھ سے ضرور رابطہ کرے گا۔
پھر تقریباََ سال ڈ یڑھ بعد مجھے کراچی میں اُس کا فون آیا۔ راقِم نے اپنے گھر بُلوایا، والدین سے مِلوایا۔اُس وقت خاکسار پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز سے منسلک تھا۔ مگر آفرین ہے اُس جوان پر کہ اِس عرصہ کے دوران اُس میں رتّی برابر فرق نہیں آیا۔میری والدہ نے اُس کی دعوت کی، یہاں بھی اُس نے پھل کے ساتھ گھر کی بنی ہوئی روٹی بہت شوق سے کھائی۔میں اُسے ٹیلی وژن اسٹیشن لے گیا۔اُس کے اخلاق سے وہاں کا سارا عملہ بہت مُتاثر ہوا۔یہاں ایک دِلچسپ ماجرا پیش آیا۔وہاں اُس وقت انجینیرنگ کے شفٹ انچارج بولانی صاحب کو کِسی نے خبر دی کہ ایک جاپانی آیا ہوا ہے،وہ تقریباََ دوڑتے ہوئے ہمارے پاس آئے اور ناکاگاوا سے درخواست کی ایک وی ٹی آر مشین کی خرابی سمجھ نہیں آ رہی۔ اُس کا مینوئل جاپانی زبان میں ہے۔چونکہ حضرت کو انگریزی پر بھی عبور تھا لہٰذا تھوڑی سی محنت سے وہ مشین چالو ہو گئی۔جب ناکاگاوا کو بتایا گیا کہ یہ ( نئی ) مشین ، کچھ ٹی وی اسٹوڈیو کہمرے وغیرہ حکومتِ جاپان نے پاکستان کے عوام کو تحفہ میں دیئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا۔
یہ میری اُس سے آخری ملاقات تھی لیکن مجھے یقین ہے کہ اُس پرعزم نوجوان نے پانچ سال میں دنیا بھی دیکھی ہو گی ، اپنے والد کا قرض بھی اتارا ہو گا اور اُس نے ایک کامیاب اُستاد بن کر اپنے طلباء کی بہترین تربیت کی ہو گی۔آج وہ کہاں ہے؟ میں اُسے یاد بھی ہوں یا نہیں؟ لیکن وہ میری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
.........................................
اختتام پہلی قسط
( یہ سلسلہ وار سفرنامہ اپریل 2017کے قومی ڈائجسٹ میں شایع ہوا )
Comments