لاتوں کے بُھوت









لاتوں کے بُھوت




تحریر شاہد لطیف 


کبھی کبھی، روزمر ہ پیش آنے والی چھوٹی سی بات ، آگے چل کر عجیب واقعات پر مشتمل ایک سلسلہ بن جایا کرتی ہے۔ ایک ایسا ہی ماجرا راقِم کے دوست اور اُن کی والدہ کے ساتھ ایک بار نہیں کئی بار پیش آتا رہا۔اِس کے بعد مجھے اِس بات کا یقین ہو گیا کہ ’’ حقیقت افسانے سے زیادہ دلکش ہوا کرتی ہے‘‘ ۔ 

غالباََ 2008 کا واقعہ ہے کہ میرے ایک پُرانے دوست ضیاء کمال جو پانی کے جہاز کے کپتان تھے ، کراچی میں سُپر ہائی وے پر واقع ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس کی پہلی منزل کے فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔فرماتے ہیں کہ مہینے دو مہینے کے لئے اپنے گھر آ یا ہوا تھا کہ ایک روز دِن کے گیارہ بجے زینے پر شور و غُل سُنائی دیا۔گھر سے باہر آیا تو پتا چلا کہ نیچے والوں کے 16 سالہ لڑکے کو اُس کے گھر والے اُٹھا کر لا رہے ہیں۔اُس کا جِسم اینٹھ رہا تھا۔فوراََ قریبی مسجد کے اِمام صاحب سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا کہ اُس لڑکے کو فوراََ اُن کے پاس لایا جائے۔نیز کسی آیت کا بھی بتلایا کہ راستے بھر اُسکے کان میں مُسلسل تلاوت کرتے رہیں۔ ضیاء صاحب اپنی گاڑی میں لڑکے ، اُسکی والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ امام صاحب کے ہاں گئے۔وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ لڑکا ٹھیک ہو گیاتھا۔

امام صاحب نے پوچھا کہ اِس اچانک تکلیف ہونے سے فوری پہلے تُم نے کیا کِیا تھا ؟ اُس نے کہا کہ امّی بازار سے مچھلی لائی تھیں جو کہ کسی وجہ سے خراب ہو گئی، نیچے کو ڑے دان میں پھینکنے گیا تھا۔تب مجھے خیال آیا کہ بِلّے کُتّوں کے کھانے کے لئے قریبی پیڑ کے نیچے رکھ دیتا ہوں۔ میں نے اُس شاپر کو رکھا ہی تھا کہ مجھے ایسا لگا کہ کئی بچے مجھ سے لپٹ گئے ہوں، لیکن مجھے کوئی دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اِس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔

اِس پر امام صاحب نے وہاں موجود افراد کو ایک پیڑ کی شاخ دِکھلائی اور کہا کہ کراچی اور اُس کے مضافات میں عام طور پر جِنّات کا بسیر ا اِس پیڑ پر ہوا کرتا ہے۔لہٰذا ایسے پیڑ کے نزدیک غلاظت یا کوڑا کرکٹ پھینکنا مناسب نہیں۔

تو جناب یہاں سے ایک عجیب قِصّہ شروع ہوتا ہے۔
............................................................

اُسی شام، ضیاء کواپنی والدہ کے ساتھ کہیں جانا تھا ، وہ نیچے اترے کہ والدہ کے آنے سے پہلے ہی گاڑی تیّار کر لیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں کار میں ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ یوں محسوس ہوا جیسے پیچھے سے کوئی دھکا دے رہا ہے۔موصوف نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا ، وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔ابھی اُن کی توجہ پیچھے ہی کی جانب تھی کہ یوں لگا گویا اب کار کو سامنے کی جانب سے دھکا لگایا جا رہا ہے۔وہ کار سے نیچے اُترے، سامنے اور پیچھے کوئی نہیں تھا۔وہ دوبارہ کار میں بیٹھے تا کہ اُسے چالو کر سکیں۔ساتھ ہی توجہ آگے اور پیچھے بھی رکھی۔اب کی دفعہ بھی وہی معاملہ پیش آیا مگر نہ سامنے اور نہ پیچھے بلکہ اب یہ حرکت گاڑی کے چھت پر ہوئی، جیسے اُوپر کوئی کُود رہا ہو۔یہ دوبارہ حیرت زدہ کار سے نیچے اُترے مگر اوپر کوئی ہوتا تو نظر آتا۔

ا سی دوران اُن کی والدہ بھی آ گئیں۔یہ پریشان تھے کہ اپنی والدہ کو اب کیا بتائیں۔بہرحال خاموش رہے۔اِدہر والدہ گاڑی میں بیٹھیں اُدہر گاڑی کی چھت پر اُچھل کُود شروع۔اب کی دفعہ تو پوری گاڑی میں بھونچال آ گیا۔مزے کی بات یہ کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود گاڑی کی چھت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

اُن کی والدہ نے بیٹے سے کہا کہ ذرا دیکھو تو ، یہ کیا معاملہ ہے؟۔اب تو ضیاء صاحب کو اصل بات بتانا ہی پڑی کہ نظر نہ آنے والی مخلوق اِن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔

حضرت خود بتلاتے ہیں کہ میری والدہ کار سے نیچے اُتریں، اپنی دائیں پیر کی جوتی اُتاری اور غصّہ سے بولیں :
’’ تم لوگ جِن ہو یا بھوت! جو بھی ہو گے اپنے گھر میں ہو گے۔دِکھائی نہیں دیتے تو کیا ہوا؟ موجود تو ہو نا؟ یہ جوتی دیکھ رہے ہو نا؟ مار مار کر دنبہ نہ بنایا تو میرا نام نہیں................. ‘‘۔یہ کہہ کر جوتی ہاتھ میں لے کر چھت کی جانب لپکیں ساتھ ہی مستقل بُڑبُڑاتی اور شرارت کرنے والوں کو غصّہ سے مُخاطب کرتی گئیں۔سیکنڈوں میں حالات والدہ کے کنٹرول میں ہو گئے اور چاروں طرف سُکون ہو گیا۔

’’ تُم نے دیکھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘۔یہ کہہ کر اُن کا غُصّہ قدرے کم ہوا۔

ضیاء کمال بتاتے ہیں کہ وہ دِن اور آج کا دِن والدہ کی کار میں موجودگی تو دور کی بات ہے جب وہ گاڑی کی جانب ابھی آ ہی رہی ہوتی ہیں تو یہ شرارتیں فی الفور بند ہو جاتی ہیں۔اِن کی عدم موجودگی میں یہ شرارتیں روزِ اوّل کی طرح سے جاری و ساری ہیں۔راقِم بھی اِن بے ضرر شرارتوں سے فیض یاب ہو چکا ہے۔

اِس واقعہ میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ 
* شرارتوں کا یہ سلسلہ کیوں شروع ہوا؟ اور اب تک آخر کیوں قائم ہے؟ 

*یہ جِنّات کے بچے بڑے کیوں نہیں ہو رہے؟

* ایک زمانے سے ایک ہی قِسم کی شرارتیں کیوں؟ بچے جُوں جُوں بڑے ہوتے جاتے ہیں تُوں تُوں اُن کی شرارتیں بھی بدلتی جاتی ہیں ۔

*مزے کی بات یہ کہ حضرت وہ کار بھی بدل چکے مگر ’ جِنّاتی بچوں ‘ کی وہ شرارتیں نہیں بدلیں۔

خاکسار کی ناقص تحقیق کے مُطابق اَن سوالات کے یہ جوابات ہیں:

*چونکہ ضیاء کمال ہی متاثرہ لڑکے کو اپنی کار میں امام صاحب کے پاس لے گئے تھے۔لہٰذا نشانے پر رکھ لئے گئے۔ خواہ یہ اکیلے ہوں یا اِن کے ساتھ اور لوگ بھی ( والدہ کے علاوہ ) ، یہ سلسلہ ہنوز جاری رہنے کی کوئی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی۔

*8 سال ہونے کو آ ئے مگر جِنّات کے بچے بڑے ہونے میں نہیں آ رہے۔یا تو اُن کے ماہ و سال ہماری دُنیا کے ماہ و سال سے مختلف کوئی اور اِکائی رکھتے ہیں۔یا یہ صرف اُنکی بے ضرر موجودگی کی علا مت ہے ۔ 

* سالہا سال سے ایک ہی قِسم کی شرارتیں کرنا مستقل مزاجی کی یہ ایک اعلیٰ مِثال ہے۔یا پھر ہماری اور جِنّات کی حِسِ مزاح میں فرق ہے۔اِنسان ایک ہی لطیفہ یا شرارت سُن کر اُکتا جاتا ہے شاید یہاں یہ بات نہیں ہے۔

*ضیاء کمال نے غالباََ اِس دوران ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی گاڑیاں بدل ڈالیں مگر یہ اُچھل کو د اور کار کو دھکا لگانا قائم ہے۔ہاں! البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اگر موصوف یہ اپارٹمنٹ چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوتے ہیں تو کیا یہ سلسلہ رُک جائے گا؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اختتام


 (خاکسار کا  یہ  مضمون جون 2017کے ماہنامہ حکایت  ڈائجسٹ میں  شایع ہوا.)

Comments

Popular posts from this blog