سوہنی دھرتی اور مسرورؔ انور
سوہنی دھرتی اور مسرورؔ انور
تحریر
شاہد لطیف
یہ ارضِ وطن، پاکِستان ہمارا سب ہی کچھ ہے۔جب جب کڑا وقت آیا، تب تب ہماری بہادر سپاہ کے ساتھ ساتھ ہر خاص و عام، اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے بھر پور طرح سے اِس پاک سرزمین کی حفاظت کے مُقدس فرض میں شریک ہوا۔ کیا اہلِ قلم، کیا شعراء، کیا فنکار وغیرہ۔فنکاروں میں ملکہء ترنم نورجہان، مہدی حسن، اُستاد امانت علی خان، مجیب عالم، احمد رُشدی، عالم لوہار، نہال عبداللہ، تاج مُلتانی، اور بہت سے دوسرے ۔شاعروں میں صوفی غُلام مُصطفےٰ تبسم، جمیل الدین عالی، حبیب جالب، رئیس امروہوی، مُشیر کاظمی، کلیم عثمانی اور بہت سے دوسرے۔
سوہنی دھرتی کے حوالے سے ایک ایسا نام ذہن میں آتا ہے کہ یہ حوالہ ہی جِس کی پہچان بن گیا۔سوہنی دھرتی کا لفط سُنتے ہی جِس شخص کا نام ایک دم زبان پر آتا ہے وہ مسرور ؔ انور ہے۔اِن کو راقِم نے قریب سے دیکھا اور اُن کے ساتھ وقت گُزارا ہے۔شاعر تو سب اچھے ہوتے ہیں، یہ بھی یقیناََ بہت اچھے شاعر اور فِلمی گیت نگار تھے ، لیکن ، روز مرہ معاملات میں کیسے تھے؟ گھر میں بحیثیت باپ کے اور دیگر افراد سے تعلقات میں کیسے تھے؟ ایک اِنسان کے ناطے ، راقِم نے اُن کو کیسا پایا ؟ زیادہ تر اِن ہی نُکات پر بات کرنا چاہوں گا۔
خاکسار، پاکستان ٹیلی وژن کا مشکور ہے کہ اُس کی مُلازمت کے طفیل، فِلم ، ٹی وی، ریڈیو او ر اسٹیج کی نامو ر شخصیات کے ساتھ کام کرنے ، اور اُن کے پاس بیٹھنے کا موقع مِلا ۔
1981 کے اوائل میں کراچی شہر میں موسمِ بہار تھا یا نہیں، میں نہیں جانتا، لیکن یہ پورا سال میرے لئے بہار ہی بہار رہا ۔ وہ ایسے کہ پہلے نثار بزمی صاحب سے میری شناسائی ہوئی ۔ ’ الوقار ‘ ۔ B-80 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد ، کراچی۔ یہ بزمی صاحب کا مکان تھا جہاں میں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نامور شخصیات کو دیکھا۔ یہیں ایک ایسی ہنس مُکھ شخصیت کا ساتھ مِلا، جِس کو زمانہ مسرور ؔ انور کے نام سے یاد کرتا ہے۔
مسرور بھائی نے بزمی صاحب کی کئی ایک یادگار فلموں کے گیت لکھے تھے۔ اداکار ندیم کی طرح ، یہ بھی جب کراچی آتے، تو بزمی صاحب کے ہاں ضرور مِلنے آتے ۔راقِم ایک مرتبہ لاہور گیا، وہاں حضرت کو فون کیا، موصوف بہت خوش ہوئے اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔’ دبئی چوک ‘، اقبال ٹاؤن، گلشن بلاک۔ مکان کا کیا پیارا نام تھا ’ سوہنی دھرتی ‘۔وہ اتنے تپاک اور گرم جوشی سے ملے کہ مجھ کو شرمندگی ہونے لگی۔
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ
مسرور بھائی کمال کی شخصیت تھے۔بھلا میرا اُن کا کیا جوڑ۔مگر وہ سب لوگوں سے اِسی طرح ملتے تھے۔بس پھر اُس دِن کے بعد، جب بھی آپ کراچی آتے، راقِم کو ضروربتاتے۔میں بھی جب لاہور جاتا، آپ سے لازماََ ملاقات ہوتی۔مسرور بھائی کی معرفت، لاہور کے مشہور اداکار اور اداکاراؤں، گلو کار اور گلوکاراؤں، موسیقار اور فلمی شعراء، صدابندی اور دیگر شعبوں کے ہنر مندوں سے ملاقات ہوا کرتی۔ایک مرتبہ فلمساز جمشید ظفر کے دفتر میں فلم پروڈیوسر ایسو سی ایشن کے اِجلاس میں بھی لے گئے ، جہاں فلمساز سہیل بٹ اور کراچی سے غفّار دانے والابھی موجود تھے۔
ٹی وی کے پروگراموں کے سلسلہ میں پاکستانی فلمیں ، گانوں کے لئے درکار ہوا کرتی تھیں ۔اِ ن کے حُصول کے لئے اکثر مجھ کو یہ کام سونپا جاتا تھا۔جلد ہی مسرور بھائی کی معرفت ایور ریڈی پکچرز ( جنہوں نے علی سفیان آفاقی صاحب کی فلم ’ آس ‘ ریلیز کی تھی ) اور نگار پکچرز (جنہوں نے ڈبلیو۔زیڈ۔احمد کے بیٹے، فرید احمد کی فلم عندلیب ریلیز کی تھی) والوں سے بھی سلام دعا ہو گئی۔
ایک مرتبہ مسرور بھائی کی وجہ سے راقِم نے ا نہونی کو ہونی بنا دیا ۔ وہ ایسے کہ پی۔ٹی۔وی ۔ کراچی مرکز کے کسی ڈ رامے کے لئے ادا کار ابراہیم نفیس درکار تھے۔ صورتِ حال کچھ یوں تھی کہ اِن کے نہ آنے سے دِن بھر کی ریکارڈنگ متاثر ہو رہی تھی اور موصوف نے کسی مصروفیت کی بِنا پر، آنے سے قطعی معذرت کر لی تھی۔راقِم نے اُس وقت کے پروگرام منیجر مُحسن علی صاحب سے لاہو ر ایک فون کرنے کی اجازت مانگی۔مسرور بھائی کو فون کیا کہ وہ نفیس بھائی کو ریکارڈنگ میں آنے کا کہیں۔اِس خاکسار کو علم تھا کہ مسرور بھا ئی اور نفیس بھا ئی کی دوستی ، کراچی میں بننے والی فلم ’ بنجارن ‘ سے قائم تھی۔تو یہ انہونی اللہ کے کرم سے ہو گئی۔اور پی۔ٹی۔وی۔ کی انتظامیہ میں اِس کمتر کے وقار میں اضافہ ہو گیا۔
پاکستان ٹیلی وژن کے راولپنڈی ایوارڈ منعقدہ 1981 کے سلسلہ میں مجھے موسیقی کے شعبہ کا نگران مقرر کیا گیا۔ اس لائیو اسٹیج شو Live stage show کے لئے میری نظر میں موسیقار کریم بھائی، المعروف کریم شہا ب الدین بہترین انتخاب تھے۔ ہم دونوں میں یہ طے ہوا کہ لاہور کی فلمی صنعت کے سازندے ہماری محنت کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔مسرور بھائی کو یہ بات بتلائی گئی اور کراچی میں بیٹھ کر پنڈی کے ایوارڈ کا مسئلہ براستہ لاہور ، مسرور بھائی نے حل کر دیا۔ نتیجہ؟ نتیجہ یہ کہ راقِم کی نگرانی میں موسیقی کا شعبہ ، توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا ۔ڈائرکٹر پروگرامز ، ڈائرکٹر ایڈمنسٹریشن اینڈ پرسونیل اور جناب عشرت انیس انصاری ( آخری دو حضرات نے کراچی مرکز میں راقِم کی تربیت بھی کی تھی) ا ور دیگر ہیڈ آفِس کے افسران کی نظر میں خاکسار کی عزت دو چند بڑھ گئی ۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان اور مسرور بھائی کی بے لوث مدد تھی۔
اِن چنیدہ واقعات کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تو اُس وقت پی۔ٹی۔وی میں ایک معمولی معاون پروڈیوسر تھا، مجھ کو ہی اُن سے بھر پو ر فوائد پہنچے ؛ اُنکا مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ اگر کسی کو اُن کی ذات سے کوئی فیض پہنچتا ہے تو اُس کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا کرتے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ مسرور بھائی نے راقِم کی کیسی مدد کی ۔ میری طرح ، آج بھی ایک عالم اُنکا معترف ہے ۔
مسرور انور صاحب جب دوسروں پر بغیر کسی لالچ کے مہربان تھے تو لازماََ اُن کو ایک ذمہ دار شوہر اور ایک نہایت شفیق باپ بھی ہونا چاہیے تھا۔میں نے اُن کو اِس سلسلہ میں بہت متوازن پایا۔ اُنہیں ہم سے بچھڑے ۲۰ سال ہو گئے۔آج بھی آپ اُن کے اکلوتے بیٹے ، احمد فراز سے ’ سوہنی دھرتی ‘ میں جا کر یہ سوال کر سکتے ہیں۔وہ لازماََ کم و بیش وہی کہیں گے جو راقِم نے دیکھا اور محسوس کیا ۔
میں نے پاکستان ٹیلی وژن۔لاہور مرکز میں اُس وقت کے ایک بہت فعال اور مستعد موسیقار، جناب مُحسن رضا خان کے ساتھ مسرور بھائی کو کام کرتے دیکھا۔ اِسی نشست میں خوش قسمتی سے اُستاد نذر حسین بھی آ گئے۔اُس روز مجھ کو اندازہ ہوا کہ مسرور بھائی شیٹ میوزک sheet music ( موسیقی کا لکھنا اور پڑھنا)سے واقفیت رکھتے تھے۔
کراچی میں جناب شبی فاروقی صاحب کے بعد، لاہور میں مسرور بھائی کو دیکھا جو اپنے گیتوں کی صدابندی کے وقت ، ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں ضرور موجود ہوا کرتے تھے۔ کیوں کہ صدابندی کے دوران، کبھی صرف ایک لفظ کو آ گے پیچھے یا تبدیل کرنے سے گلوکار ؍ گلوکارہ کو سانس لینے یا توقف کرنے میں آسانی ہو جا یا کرتی ہے۔
مجھے مسرور بھائی کے ساتھ فلمسازوں، تقسیم کاروں اور ہدایت کاروں کے دفاتر جانے اور وہاں ہونے والی گفتگو بغور سُننے کا کئی دفعہ اتفاق ہوا ۔فلمی کہانیوں، منظر ناموں، گیتوں اور مکالموں کی باتوں کے علاوہ، پچھلے پیسوں کی عدم اد ایگیوں کا بھی ذکر ہوتا جِن کی ایک سے زیادہ دفعہ وعدہ خلافی ہو چکی ہوتی تھی۔ایسے حالات میں بھی مسرور بھائی کی وہی مسکراہٹ قائم رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے مسرور بھائی کو حقیقتاََ صحیح معنوں میں مسرور رکھا ہوا تھا۔زمانے کے سرد و گرم، مالی معاملات اور دیگر ذاتی مسائل کا کبھی ذکر نہیں کیا کرتے ؛ بلکہ ہم جیسے عام سے لوگوں کے ننھے مُنے مسائل حل کر کے تمام وقت شاداب رہا کرتے تھے۔
وہ ایک عملی انسان تھے۔فلمی صنعت میں ہونے والی کسی گروہی سیاست ؍ لابی کے حصہ دار نہیں رہے۔چونکہ آپ کو اپنے کام پر مکمل گرفت تھی لہٰذا ، آخر وقت تک استقامت اور دل جمعی سے کام کیا۔دیبو بٹھہ چاریہ Deebo Bhattacharya ( جن کے ساتھ مسرور بھائی نے پہلا فلمی گیت ’ بنجارن ‘ کے لئے لکھا تھا۔ ’ بدنام ‘ کی موسیقی بھی انہوں نے ترتیب دی تھی )، سہیل رعنا، لال محمد اقبال، امجد بوبی، خلیل احمد، ایم۔اشرف، روبن گھوش، ناشاد، نثار بزمی، مُحسن رضا خان اور دوسر ے
موسیقاروں کے ساتھ کئی مشہور گیت لکھے جو آج بھی نہ صرف عوام کی زبان پر رہتے ہیں بلکہ روز مرہ ضرب الامثال کا درجہ حاصل کر چکے ہیں، جیسے:
آئے ہیں تیرے در پر تو کچھ لے کر جائیں گے
ورنہ اِس آستاں پہ یہ جاں دے کے جائیں گے فلم: الزام گلوکاران: صابری برادران
ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تُم آ گئے اچانک بڑ ی عمر ہے تمہاری فلم: بے وفا گلو کارہ: نور جہاں
1965 کی دوسری پاک بھارت جنگ میں آپ نے یہ مشہور قومی نغمہ لکھا :
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
قومی جذبہ سے سرشار یہ لازوال نغمہ ، مسرور بھائی نے موم بتی کی ہلکی روشنی کی مدد سے دورانِ جنگ، بلیک آوٹ میں لکھا تھا۔ مجھ کو یہ بات اُن کے صاحبزادے احمد فراز نے بتائی، جِن کو اُن کی تائی امّاں نے بتایا ۔ اگلی صبح وہ اِس نغمہ کو ریڈیو پاکستان کراچی لے کر گئے ؛ جہاں بہت کم وقت میں اُس کی دھن بنی اور مہدی حسن کی آواز میں صدا بند کر کے نشر کر دیا گیا ۔اِس قومی نغمہ کو بچوں کے نصاب میں شامِل کر لیا گیا ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ یہ دھن مہدی حسن صاحب نے بنائی تھی۔
اِسی طرح 1971 کی تیسری پاک بھارت جنگ میںآپ نے ایک اور معرکہ مارا ۔ یہ تب سے لے کر اب تک ، ہر خاص و عام کی زبان پر رہتا ہے؛ آج کل ’ کوک اسٹوڈیو ‘ میں اِس کو نئے اور پرانے گلوکار؍گلوکارہ پیش کرتے ہیں۔اور اِس کے آخر میں جناب انور مقصود صاحب بھی کچھ فرماتے ہیں۔لیکن بہت سِتم اور افسوس کی بات ہے ، کہ اِس گیت کے خالق ، مسرور انور کا نام تک نہیں لیا جاتا ۔اسی نغمہ پر آپ کو بعد از مرگ تمغہِ حسنِ کارکردگی مِلا تھا۔ وہ نغمہ ہے:
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
اِ س نغمہ کو بھی ہمارے ملک کے نصاب میں شامِل کیا گیا ہے۔
- اِس قومی نغمہ کی دھُن موسیقار سُہیل رعنا صاحب نے بنائی ہے۔ اصل نغمہ شہناز بیگم کی آواز میں صدابند ہوا تھا۔بعد میں اس کو پاکستان کے تقریباََ سب ہی نامور فنکاروں نے بھی پیش کیا۔سہیل رعنا صاحب ایک زمانے سے کینیڈا میں نقلِ مکانی کر گئے ہیں۔یہاں بھی انہوں نے ایک حیرت ناک کام کر کے مُلک کا نام روشن کیا۔آپ نے کینیڈا کے قومی ترانے کی دُھن پر اُردو میں بول لکھے۔ پھر اُدہر کی مقامی آوازوں میں صدابند کرویا۔ وہاں کی کی حُکومت سے اُسے منظور بھی کروا لیا۔اب اِس ’ اُردو ‘ ترانے کو سرکاری درجہ دے دیا گیا ہے۔ یہ بات مجھے شان الحق حقّی صاحب کے صاحبزادے اور اِس کمتر کے اُستاد، عدنان حقی نے دسمبر 2015 میں بتلائی ۔ یہ خود بھی وہیں رہتے ہیں اور سہیل رعنا صاحب سے دعا سلام ہوتی ہے ۔
مسرور بھائی کا ایک اور مِلّی نغمہ بھی بے حد مقبول ہوا تھا:
جُگ جُگ جیئے میرا پیارا وطن
اِن کے مقبول فلمی گیتوں کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے؛ ذیل میں چند گیتوں کا زِکر کیا جاتا ہے:
1 اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم فلم: ارمان
2 بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے فلم: بدنام
3 کو کو رینا فلم: ارمان
4 اے ابرِ کرم آج اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں فلم: نصیب اپنا اپنا
5 تمہیں کیسے بتا دوں تُم میری منزل ہو فلم: دوراہا
6 مجھے تلاش تھی جِس کی وہ ہمسفر تُم ہو فلم: جہاں تُم وہاں ہم
7 مجھے تُم نظر سے گرا تو رہے ہومجھے تُم کبھی بھی بھُلا نہ سکو گے فلم: دوراہا
8 یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی فلم: آگ
9 بیتے دِنوں کی یادوں کو کیسے میں بھلا دوں فلم: آگ
10 میں جِس دِن بھلا دوں تجھے اپنے دِل سے فِلم: خوشبو
11 آئے ہیں تیرے در پر تو کچھ لے کر جائیں گے فِلم: اِلزام
12 کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے فلم: عندلیب
13 دِل دھڑکے میں تُم سے یہ کیسے کہوں فلم: انجُمن
14 دِل ہو گیا ہے تیرا دیوانہ اب کوئی جچتا نہیں فلم: مُشکِل
15 اِک بار مِلو ہم سے توسو بار ملیں گے فلم: بوبی
16 اللہ اللہ کیا کرو دُکھ نہ کسی کو دیا کرو فِلم: پہچان
مسرور بھائی ڈائری باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے۔جو معلومات کا خزانہ اور خود اُن کے لئے گیتوں ، کہانیوں اور منظر نامہ لکھنے کے لئے مدد گار ہوتیں۔ایک مرتبہ کہنے لگے کہ یہ ڈائریاں اُن کے لئے خیالات، کہانیوں کے پلاٹ وغیرہ کا ایک سرچشمہ ہیں۔
مسرور بھائی کو بعد از وفات، اُس وقت کے صدرِ پاکِستان، جناب فاروق لغاری صاحب نے تمغہِ حُسنِ کارکردگی سے نوازا ؛ جو اُن کی بیگم نے وُصول کیا۔یہ بھی اِتفاق ہے کہ اُستاد نصرت فتح علی خان کی بیگم نے بھی اِسی تقریب میں اُن کا بعد از وفات تمغہِ حُسنِ کارکردگی وُصول کیا۔ گلو کارہ مہناز بھی اِس تقریب میں صدرِ پاکستان سے تمغہِ حُسنِ کارکردگی وُصول کرنے کراچی سے آئی تھیں ۔ اِس خاکسار کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے میرے غریب خانے میں بھی قیام کیا ۔
مسرور انور صاحب نے غالباََ اب تک سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔آپ نے 17 مذکورہ ایوارڈ حاصل کئے۔ مجھ کو یہ بات اِن کے صاحبزادے، احمد فراز نے بتلائی جو آجکل ’ جیو ‘ لاہور میں اہم ذمّہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ لاہور ہی میں منعقدہ ایک تقریب میں مسرور بھائی نے ہفت روزہ نگار کے روحِ رواں، جناب الیاس رشیدی صاحب سے میری ملاقات کروائی تھی۔
ایک مرتبہ میں نے مسرور بھائی کو تجویز پیش کی کہ کیوں نہ بڑے پیمانے پر بزمی صاحب کو خراجِ عقیدت کا پروگرام ہیش کیا جائے۔مجھے اِس کا خیال کراچی میں آیا۔ ہوا یوں کہ میری موجودگی میں بزمی صاحب کے لئے گاہے بگاہے بمبئی بھارت سے ، لکشمی کانت اور پیارے لال، المعروف لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی کے ٹیلی فون آیا جایا کرتے تھے۔ مجھے آ نجہانی جناب لکشمی کانت صاحب سے دو مرتبہ گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہواہے۔ لکشمی کانت کے سپرد معاملات طے کر نا، تعلقاتِ عامہ اور کاروباری معاملات تھے، جبکہ پیارے لال کے ذمّہ میوزک ارینجمنٹ تھا۔ پیارے لال شرمیلے، کم گو اور بہترین ارینجر تھے ۔ مجھ کو یہ بات نثا ر بزمی صاحب نے بتلائی۔
مسرور انور اُس قبیل کے لوگوں میں سے تھے کہ جِن کے نزدیک ناممکنات، ناممکنات نہیں ہوا کرتیں۔مجھ سے کہا کہ ہاں یہ پروگرام بالکل ہو سکتا ہے۔فوراََ اپنی ڈائریاں کھولیں اور ایک صفحہ پر ترتیب سے پہلے نام لکھے پھر فون نمبر اور پھر فون کرنا شروع ہوئے۔ ایک لمحہ کو بھی نہیں پوچھا کہ آخر وہ یہ سب کیوں کریں؟
تو اُس روز گھنٹہ بھر میں ڈھاکہ ، بنگلہ دیش میں رونا لیلیٰ سے بات بھی کر لی اور کراچی میں بیمان انٹر نیشنل ( بنگلہ دیش کی قومی ائر لائن) سے رونا لیلیٰ اور اُن کے ساتھ آنے والوں کے اعزازی ٹکٹ اور لاہور میں پانچ ستارہ ہوٹل میں اِن کے اعزازی قیام کے بندوبست کی بات بھی ہو گئی۔اُدہر لکشمی کانت صاحب سے بھی تفصیلی بات ہوئی ۔ خاکسار پر اُس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے جب لکشمی کانت صاحب نے کہا کہ کہ بزمی صاحب کے لئے وہ ، یعنی لکشمی کانت اور پیارے لال، 30 سازندوں کا آرکسٹرا، گلوکار محمد عزیز اور گلوکارہ الکا کو وہ خود اپنے خرچہ پر لے کر آئیں گے۔ اور ہوٹلوں کے قیام کے اخراجات کے بھی وہی ذمہ دار ہوں گے۔کیوں؟
راقم کو اِس کیوں کے جواب پر بے انتہا خوشی ہوئی۔آنجہانی لکشمی کانت نے کہا کہ بمبئی کی فلمی صنعت میں ہم بزمی صاحب کی بدولت داخل ہوئے۔ہم کو تیسرے درجہ سے دوسرے ، پھر اس کے بعد درجہ اوّل کے سازندے بنانے میں بزمی صاحب کا بہت ہاتھ ہے ۔ پیارے لال صاحب کا کہنا تھا کہ آج اگر بمبئی میں مجھ کو ایک اچھا ارینجر مانا جاتا ہے تو وہ بھی بزمی صاحب کی مرہونِ منت ہے۔ آنند بخشی صاحب نے تو حد ہی کر دی۔آنجہانی فرمانے لگے کہ مجھے پہلی فلم میں گانے لکھوانے کے لئے بزمی صاحب خود ساتھ لے کر گئے تھے۔ مجھے پہلا فلمی گیت نثار بزمی صاحب کی بدولت ہی ملا۔
جب اِس پروگرام کے سرحد پار انتظامات اِ س قدر عمدگی سے طے ہوئے تو ملکی فِلمی صنعت کے نامور فنکار، اداکار اور اداکارائیں، کامیڈین وغیرہ کے بھر پور حصّہ لینے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ تی تھی۔
میں نے تعلقاتِ عامہ کے سلسلہ میں آپ کے جیسا کوئی اور نہیں دیکھا ۔مجھے اِس مجوزہ پروگرام کی کامیابی نظر آنے لگی۔آپ دیکھئے نا ! آنندبخشی آنے کو تیار، رونا لیلیٰ آنے کو تیار، بیمان انٹرنیشنل اور ہماری قومی ایر لائن بھی اعزازی ٹکٹ دینے پر رضامند...... افسوس کہ وہ نثار بزمی والا شو تو کسی وجہ سے نہ ہو سکا لیکن اِس کے وسیلے سے کئی شخصیات سے ملاقات ہو گئی۔
مسرور بھائی ملک میں اور ملک کے باہر فلمی طائفہ لے جانے کے ماہر تھے۔مختلف محکموں کی منظوریاں، ضابطے، پھر دوسرے ممالک میں پیش آنے والے بعض مخصوص مسائل وغیرہ احسن طریقے سے حل کرواتے تھے۔
جب مسرور بھائی کا لکھا، امجد بوبی کی موسیقی اور سلمیٰ آغا کی آواز میں یہ گیت:
اک با ر ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے
ہم جیسے کہاں تم کو طلبگار ملیں گے
مقبول ہو کر سلمیٰ آغا کی مقبولیت کو چار چاند لگا رہا تھا تو دو تین مرتبہ وہ سلمیٰ آغا پر مشتمل طائفے لے کر براستہ کراچی ، ملک سے باہر گئے۔ وہ کراچی ائرپورٹ کے قریب ہوٹلوں میں قیام کرتے۔ اُ ن کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا پھر بھی جب میں وہاں جاتا تو ہمیشہ کی طرح گرم جوشی سے ملتے ۔
تنویر نقو ی ، قتیل شفائی، کلیم عثمانی ، تسلیم فاضلی، احمد راہی، شباب ؔ صاحب اور د وسرے فلمی شعراء نے فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ بہت عُمدہ غزلیں بھی کہیں ہیں۔ اِسی طرح مسرور انور بھی گیت نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں حالاں کہ ابتدا ہی میں فلم ’ بدنام ‘ میں اُن کی لکھی گئی غزل مشہور ہو گئی تھی :
ٍبڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دِل لگانے کی کوشش نہ کرنا
دھن د یبو بھٹہ چاریہ نے بنائی او ر گلوکارہ ثریا مُلتانیکر تھیں ۔اِس غزل نے پورے مُلک میں دھوم مچا دی تھی۔
کہانی نویس اور گیت نگار مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا اور ہدایت کار پر ویز ملک ، یہ ایک عرصہ کامیابی کی اکائی ر ہی۔ کراچی کی بنی ہوئی یہ فلمیں ، جیسے ارمان، دوراہا، احسان وغیرہ اِس کی مِثال ہے۔
ایک مرتبہ ریڈیو پاکِستان سے اِن کا انٹرویو نشر ہوا جِس کی ایک بات مجھے آج تک یاد ہے۔کِسی سوال کے جواب میں اِنہوں نے کہا کہ جب وہ اپنا گیت ’’ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم ‘‘ لکھ رہے تھے تو ایک جگہ گیت اٹک گیا ۔جو لکھتے ، بات نہیں بنتی تھی ۔ اِس دوران فجر کا وقت ہو گیا ۔ اِدہر مسجد سے اللہ اکبر کی آواز بُلند ہوئی اُدہر گیت کا پورا تسلسل موزوں ہو گیا:
ہر اک مُوڑ پر ہیں رِواجوں کے پہرے
تُمہی کو نہیں اِسکا سب ہی کو گِلہ ہے
مگر لوگ جیتے ہیں اِن مُشکِلوں میں
ہے جِن کا نہیں کوئی اُ ن کا خُدا ہے
یہی ہے تَمنّا یہی اَلتِجا ہے
اور اِس کے سِوا ہَم بھلا کیا کہیں گے
بعض وجوہات کی بِنا پر سہیل رعنا صاحب نے کافی کم فِلموں کی موسیقی ترتیب دی، جِس کا مجھ کو ہمیشہ افسوس رہے گا۔آپ اُن کی پہلی فلم ’ جب سے دیکھا ہے تمہیں ‘ کے گیت سنئے تو ایسا لگتا ہے کہ باغ کی کیاریوں میں پانی اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آ رہی ہو۔ ہیرا او ر پتھر، ارمان، دوراہا، احسان، سوغات، با زی وغیرہ اور پاکستان میں اُن کی آخری (غالباََ ) فلم ’ بادل اور بجلی ‘ کی موسیقی میں کافی حد تک یہی مہکا ر محسوس ہوتی ہے اور جسم اور روح کو ایک تازگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
مسرور بھائی نے لاہور آ کر اوّل اوّل نثار بزمی صاحب کے ساتھ کافی کام کیا۔ لاکھوں میں ایک، آگ، انجمن وغیرہ۔اُن کے ساتھ ساتھ ، لاہور کی انڈسٹری کے تقریبا سب ہی موسیقاروں کے ساتھ مسرور بھائی نے کام کیا۔گیتوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ گیت ایم اشرف صاحب کے لئے لکھے۔
آپ نے فلموں کے مکالمے بھی لکھے ؛ مثلاََ ’ دِل میرا دھڑکن تیری ‘ ’ فرض ‘ ’ کرن اور کلی ‘ وغیرہ۔
آپ نے فلموں کے مکالمے بھی لکھے ؛ مثلاََ ’ دِل میرا دھڑکن تیری ‘ ’ فرض ‘ ’ کرن اور کلی ‘ وغیرہ۔
ہمارے محترم مسرور بھائی یکم اپریل 1996 کو دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
وہ بے شک ایک ہنس مُکھ اور زندہ دِل اِنسان تھے۔ فلم اور فلمی صنعت، مسرور بھائی کا اوڑھنا بچھونا تھا، اِسے وہ بہت سنجیدگی سے لیتے تھے اور اِس صنعت سے پوری طرح واقف تھے۔میں نے انہیں کبھی فارِغ بیٹھے نہیں دیکھا۔بھاگ دوڑ، محنت، لکھنا لکھانا اور دوسروں کے کام آنا۔ دِ ن ہو یا رات، کوئی اپنا مسئلہ اُ ن کے پاس لایا نہیں اور وہ پیشانی پر بَل لائے بغیر اُس کے ساتھ گئے نہیں۔ پیسہ اور شہرت آنی جانی شے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مسرور بھائی کو دیکھ کر میں نے بھی اُن کے نقشِ پا پر چلنے کی کوشش کی۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسرور بھائی کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
تاریخِ پیدائیش: 5 جنوری 1941
تاریخِ وفات: یکم اپریل 1996
( یہ مضمون ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، دسمبر ٢٠١٦ کے شمارے میں شایع ہوا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments