پلازوں میں ۤگ ۔۔۔۔ کب تک ؟
پلازوں میں آگ …… کب تک ؟
اُلٹ پھیر
شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com
مارچ کی 13 اور 14 دکی رمیانی شب پیس شاپنگ پلازہ گلبرگ لاہور میں آگ لگ گئی جس سے تقریباََ 400 سے زیادہ دُکانیں جل گئیں اور لگ بھگ دو ارب روپے کا نقصان ہوا۔پہلے ہی روز سے یہ سننے میں آ رہا تھا کہ یہ آگ لگائی گئی ہے۔ سرکاری عمارات جن میں کوئی ” حساس “ ریکارڈ رکھا ہو وہاں پر آگ لگوانا تو عام سی بات ہو گئی ہے۔لیکن لاہور، کراچی، راولپنڈی وغیرہ کے کمرشل پلازوں میں اس قسم کی آگ کا لگنا اپنے اندر گہرے اسرار رکھتا ہے۔ اکثر یہ ہی دیکھا گیا کہ کچھ دن تو اخبارات اور میڈیا میں کافی ہل چل ہوئی اور پھر …… کوئی نئی آگ! پرانی آگ کی تفتیش بھی پرانی فائل کی طرح کہیں دبا دی جاتی ہے!!
میری جمعہ کے روز آگ کے ایک متاثر حیدر فریدی سے بات چیت ہوئی۔انہوں نے بتایا: ”پلازے میں رات گیارہ بجے سرکِٹ بریکر ڈاؤن کر دیے جاتے تھے لہٰذا شارٹ سرکٹ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم وقوعہ کی رات گیارہ بجے دُکان کی لائٹیں بند کر کے گھر واپس آئے ہی تھے کہ بارہ بجے اطلاع ملی کہ پلازے میں آگ لگ گئی۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ پانچ کی پانچ منزلیں جل
رہی ہیں۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنے قلیل عرصے میں اتنی زیادہ آگ کیسے لگ سکتی ہے؟ دُکانوں میں اسٹاک کیا ہوا تمام سامان جل گیا یوں کم و بیش دو ارب روپے کا مجموعی نقصان ہوا۔ آگ کی فرینزک ایجنسی سے بھی تفتیش کروائی گئی ہے جس کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ اب کھُلے عام کہا جا رہا ہے کہ یہ آگ پلازا انتظامیہ نے لگوائی ہے۔اس بات کی تقویت کیمیائی مادے کی موجودگی ہے جو اے سی ڈکٹ میں پایا گیا۔ممکن ہے کہ فرینزک رپورٹ میں یہ سامنے آئے۔پلازا مالکان کے خلاف پولیس میں کیس کر دیا گیا ہے جس کی باقاعدہ ایف آئی آر کروائی جا چکی ہے۔ یہ آگ چوتھی منزل سے شروع ہوئی۔ مبینہ طور پر ڈیوٹی پر موجود کسی بھی فرد نے اس کو بجھانے کی کوشش نہیں کی جب کہ ان کے پاس آگ بجھانے کے آلات اور پانی کا اسپرنکلر سسٹم موجود تھا۔پلازا انتظامیہ کے تربیت یافتہ افراد اُس وقت موجود تھے لیکن نہ معلوم وجوہات کی بنا پر اُن کی جانب سے آگ بجھانے کو کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ پلازا انتظامیہ کی جانب سے آگ لگنے کی اطلاع بھی آگ بجھانے والوں کو نہیں دی گئی۔یہ اطلاع راہ گیروں نے دی۔ آگ اوپر سے نیچے آئی۔یہ پیلے اور سبز ر نگ کی تھی جو اس سے پہلے کہیں بھی نہیں دیکھی گئی۔آگ میں عجیب ’ بو‘ بھی شامل تھی۔ وقوعہ کے بعد سے پلازا انتظامیہ کا کوئی بھی ذمہ دار موقع پر موجود نہیں ہے۔یہاں یونین کے اراکین، دُکان دار اور پلازے کے متاثرین ہی نظر آتے ہیں جو گرمی میں بیٹھے ہیں۔حکومت نے پلازا متاثرین کے نقصان کی تلافی کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ڈپٹی کمشنر نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے متاثرین سے کہا تھا کہ وہ انہیں بتائیں کہ مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔پلازا متاثرین نے یہ رپورٹ ڈپٹی کمشنر کو دے دی ہے۔
جس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ پلازا تو پورا ہی جل چکا ہے۔ اسی پلازے میں 2001 میں بھی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگی تھی جس کے بعد پوری عمارت میں آگ بجھانے کے لئے اسپرنکلر سسٹم لگایا گیا۔اس کے ساتھ آگ بجھانے کے آلات بھی لگائے گئے کہ مستقبل میں آگ لگنے کے امکانات ہی نہ رہیں۔پیس شاپنگ پلازا میں انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی حالات سے نبٹنے کے لئے ہر وقت پندرہ سے بیس تربیت یافتہ افراد موجود ہوتے تھے۔یہ رات کو ہر ایک منزل پر گشت کرتے تھے۔یہ بھی ایک اسرار ہے کہ 1122 پرپلازا انتظامیہ کی جانب سے ڈیوٹی دینے والے کسی ایک فرد نے بھی آگ لگنے کی اطلاع نہیں دی۔ ہم سب متاثرین کی دُکانوں کی دوبارہ تعمیر کرائی جائے۔پلازا مالکان کے دو مزید شاپنگ مال لاہور میں ہیں۔ جب تک یہ پلازا دوبارہ تیار نہیں ہوتا تب تک ہمیں اُن دو پلازوں میں جگہ فراہم کی جائے اور مال کی بھی تلافی ہونا چاہیے“۔حیدر فریدی نے تجویز دی: ” بیرونی ممالک کی طرح کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر سے پہلے آگ بجھانے والے خود کار آلات کی تنصیب یقینی بنائی جائے۔ ہمار ے پلازے میں یہ سسٹم خودکار نہیں تھا بلکہ اس کا کنٹرول نیچے بیس منٹ میں تھا جوضرورت پڑنے پر ڈیوٹی پر موجود شخص حرکت میں لاتا لیکن حیرت انگیز طور پر اس کو استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ تمام پلازوں کی آگ سے نقصان کی انشورنس ہونا ضروری ہے۔ آپ دیکھئے کہ آگ لگنے کے بعد حفیظ سینٹر کی اب مکمل انشورنس ہے۔ وہاں کے کاروباری سالانہ انشورنس کا پریمیم ادا کر رہے ہیں “۔ پیس پلاز ہ یونین کے نمائندے کا کہنا ہے کہ پلازا مالکان کا دُکان داروں کے ساتھ گزشتہ دو سال سے ایک جھگڑا چل رہا ہے۔باہر بیٹھے متاثرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں کہا جا رہا تھا کہ وہ دُکانیں
خالی کر دیں کیوں کہ کوئی پارٹی پلازے کا سودا کر رہی ہے۔چوں کہ یہ بحث عرصے سے چل رہی تھی لہٰذا کہا جا رہا ہے کہ یہ آگ مبینہ طور پر لگوائی گئی ہے۔متاثرین میں سے بعض نے بتایا کہ اس آگ نے ثابت کر دیا کہ پلازا انتظامیہ کے زیرِ نگرانی آگ بجھانے کے آلات بالکل ناکارہ نکلے۔ یونین عہدے داران اور دیگر ممبران نے گلبرگ پولیس اسٹیشن میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اہلِ خانہ اور پلازا انتظامیہ کو اس آگ کا ذمہ دار ٹہرا کر ان کے خلاف ایف آئی آر لکھوائی ہے۔ مذکورہ پلازے کے60 فی صد حصہ کے مالک تاثیر خاندان اور باقی 40 فی صد دُکان داروں کا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کا پیس پلازا یونین کے نمائندوں پر کافی دباؤ ہے کہ ایف آئی آر میں سے تاثیر خاندان کے نام نکال دیے جائیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ کا قابلِ قبول کوئی حل نہیں نکل سکا۔کیا کبھی ان پراسرار آگ کے متاثرین کو بھی انصاف ملے گا؟ آخر کب تک ہمارے شہروں کے تجارتی مراکز اور پلازوں میں ایسی ’ با اثر ‘ آگ لگتی یا لگوائی جاتی رہے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments